سلیم احمد جو آنکھوں کے تقاضے ہیں وہ نظّارے بناتا ہوں - سلیم احمد

جو آنکھوں کے تقاضے ہیں وہ نظّارے بناتا ہوں
اندھیری رات ہے کاغذ پہ میں تارے بناتا ہوں

محلے والے میرے کارِ بے مصرف پہ ہنستے ہیں
میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبّارے بناتا ہوں

وہ لوری گائیں گی اور ان میں بچوں کو سلائیں گی
میں ماؤں کے لیے پھولوں کے گہوارے بناتا ہوں

فضائے نیلگوں میں حسرتِ پرواز تو دیکھو
میں اُڑنے کے لیے کاغذ کے طیارے بناتا ہوں

مجھے رنگوں سے اپنے حیرتیں تخلیق کرنی ہیں
کبھی تتلی کبھی جگنو کبھی تارے بناتا ہوں

زمیں یخ بستہ ہو جاتی ہے جب جاڑوں کی راتوں میں
میں اپنے دل کو سُلگاتا ہوں انگارے بناتا ہوں

ترا دستِ حنائی دیکھ کر مجھ کو خیال آیا
میں اپنے خون سے لفظوں کے گل پارے بناتا ہوں

مجھے اک کام آتا ہے یہ لفظوں کے بنانے کا
کبھی میٹھے بناتا ہوں کبھی کھارے بناتا ہوں

بلندی کی طلب ہے اور اندر انتشار اتنا
سو اپنے شہر کی سَڑکوں پہ فوارے بناتا ہوں
سلیم احمد
 
Top