الف نظامی
لائبریرین
2013ء کے انتخابات میں عمران خان کا ہدف پنجاب اور خیبرپختونخوا رہے،سو اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے نواز شریف کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن کو بھی مسلسل ہدف بنانا شروع کردیا۔ کیونکہ مولانا کی جماعت اے این پی کے مقابل ممکنہ متبادل آپشن تھی۔
کسی سیاسی رہنماء کا دوسرے رہنماء کو تنقید کا نشانہ بنانہ کوئی انہونی بات نہیں۔ یہ سیاست کی ایک عمومی روایت ہے کہ حریف پر تنقید ہی کی جاتی ہے مگر عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں نے غلطی یہ کردی کہ مولانا کو ذاتی دشمن کی طرح نشانہ بنانے لگے۔ اس معاملے میں نہ عمومی اخلاقی ضابطوں کا پاس رکھا گیا اور نہ ہی جمہوری روایات کا۔
پھر حد یہ ہوئی کہ انتخابات کے بعد بھی عمران خان اسی رویے پر قائم رہے۔ اور یہ سلسلہ 2018ء کے انتخابات تک چلا آیا۔ یوں مولانا فضل الرحمن بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ عمران خان انہیں سیاسی نہیں بلکہ ذاتی دشمن کے طور پر دیکھ رہے ہیں لھذا ان کے رویے میں کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں۔ اور کوئی بعید نہیں کہ مولانا اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے ہوں کہ ان کے خلاف نازیبا مہم کے پیچھے درحقیقت وہ ایمپائر ہی ہے جسے مولانا نے ہی منے کا ابا کے نام سے نیا اور دلچسپ تعارف بخشا ہے۔
2018ء کے انتخابات آئے تو وہ اسقدر “شفاف” تھے کہ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہ رہا۔ اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل فطری تھا۔ نئی اسمبلی کی حلف برداری سے قبل اپوزیشن رہنماء سر جوڑ کر بیٹھے تو مولانا فضل الرحمن کی تجویز حلف نہ لینے کی تھی۔ لیکن دیگر جماعتیں ان سے متفق نہ ہوئیں۔
نتیجتاً مولانا زبانی اعادے کی حد تک اپنے موقف پر بھی قائم رہے مگر اپوزیشن جماعتوں کے اجتماعی فیصلے کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے اراکین اسمبلی سے حلف بھی اٹھوا لیا۔ اب عمران خان شیشے کے محل میں تھے اور مولانا کے پاس صرف سڑکوں کا ہی آپشن بچا تھا۔ انہوں نے بہت تیزی سے اپنی جماعت کو بھرپور تحریک کے لئے از سر نو منظم کیا اور عمران حکومت کا ایک سال پورا ہوتے ہی سڑکوں پر نکل آئے۔
اپنے سیاسی کیریئر میں پہلی بار انہوں نے سندھ اور پنجاب سے لانگ مارچ نکال کر نہ صرف بھرپور عوامی قوت کا مظاہرہ کیا بلکہ اس لانگ مارچ نے قومی سیاست پر ایسے خوشگوار اثرات مرتب کئے کہ فکری مخالفین بھی بھرپور داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا کو یقین تھا کہ گھبراہٹ کا شکار بیک فٹ پر نظر آتی نون لیگ اور پیپلز پارٹی بھی انہیں لانگ مارچ کے دوران جوائین کرلے گی۔ مگر یہ امید پوری نہ ہوسکی۔ دونوں بڑی جماعتیں بدستور “فرینڈلی اپوزیشن” کا ہی کردار ادا کرتی نظر آئیں۔ اور یہ فرینڈلی جسچر انہی کے لئے تھا جن کا اب نام لے لے کر نواز شریف چارج شیٹ پیش کرتے ہیں۔ دنوں بڑی جماعتوں کے اس فرینڈلی رویے کا بھرپور فائدہ مولانا کو ہی ہوا۔
عوام حکومت سے تنگ آچکے تھے اور اس حکومت کے خلاف سنجیدہ و توانا آواز صرف مولانا فضل الرحمن کی ہی تھی۔ ان کے بے مثال نظم و ضبط والے لانگ مارچ اور غیر مبہم موقف کا ہی نتیجہ تھا کہ پہلی بار سیکولر حلقوں میں بھی مولانا کی بھرپور پذیرائی نظر آنی شروع ہوئی۔ یقینا پس پردہ کچھ اور محرکات بھی رہے ہوں گے مگر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو مولانا کی بڑھتی مقبولیت سے پریشانی لاحق ہوچکی تھی۔
اب ان کے پاس حرکت میں آنے کے سوا کوئی آپشن نہ تھی ورنہ جس پاکستان میں تحریک لبیک جیسی غیر سیاسی و مکمل فرقہ پرست تنظیم 22 لاکھ ووٹ لے اڑتی ہو وہاں مولانا فضل الرحمن جیسے کہنہ مشق سیاسی لیڈر کا متبادل آپشن بن جانا حیران کن نہ ہوتا۔
آج تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ پی ڈی ایم کے اب تک کے جلسوں میں نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف بہت ہی دھواں دھار تقاریر کرچکے ہیں۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری بھی پوری قوت کے ساتھ میدان میں ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کے سرگرم ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمن اپنے پچھلے لانگ مارچ اور دو ٹوک موقف سے جو سیاسی بلندی حاصل کرچکے ہیں وہ بدستور قائم ہے۔
دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت مولانا سے بھی زیادہ سخت زبان اختیار کرتے نظر آرہی ہے، مگر عوام ہوں خواہ سیاسی تجزیہ کار، دونوں ہی کی توجہ مرکز مولانا فضل الرحمن ہی ہوتے ہیں۔
سب ان کی تقریر کے منتظر پائے جاتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نجم سیٹھی جیسے لبرل تجزیہ کار بھی کہتے پائے گئے کہ بلاول نے تقریر لمبی کردی، ہم تو مولانا کو سننا چاہ رہے تھے، بلاول کو چاہئے تھا کہ انہیں زیادہ وقت دیتے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی قیادت کے ہوتے مولانا زیادہ توجہ کیوں حاصل کر رہے ہیں ؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ مولانا کوئی پس پردہ سمجھوتہ نہیں کریں گے جبکہ بڑی دونوں جماعتوں کے حوالے سے یہ بات کوئی سربستہ راز نہیں کہ ان کے بہت سے قائدین اب بھی مصالحت پر زور دے رہے ہیں۔
خاص طور پر نون لیگ کے شہباز شریف، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کا معاملہ تو بالکل ہی عیاں ہے۔ دوسری جانب عوامی موڈ کسی بھی سمجھوتے کا نہیں ہے۔ عوام اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کسی براہ راست تصادم کے خواہاں نہیں ہیں، لیکن عمران خان کی حکومت کو مزید برداشت کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں اور وہ جانتے ہیں کہ عمران خان نے پچھلے آٹھ سال کے دوران مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جس ذاتی دشمنی کی بنیاد رکھی ہے، اس کے ہوتے مولانا فضل الرحمن ان کی حکومت کا پیچھا کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔
اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے نقطہ نگاہ سے سوال بس ایک ہی رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا عمران خان کے پاس مولانا کو بے اثر کرنے کا کوئی گر ہے ؟ تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عمران خان کا سب سے طاقتور ہتھیار نیب ہے۔ اور یہی ہتھیار مولانا کے خلاف مکمل بے کار ہے۔ عمران خان آٹھ سال تک مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہتے رہے مگر انہیں وزیر اعظم بنے ڈھائی سال ہوگئے اور ہم نے اب تک عمران خان کی جانب سے مولانا پر ڈیزل کا کوئی کیس قائم ہوتے نہیں دیکھا۔
وہ سب کو نیب سے رگڑا لگوا چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف کوئی ڈیزل کیس شروع نہ کرسکے ؟
صاف عیاں ہے کہ مولانا کے خلاف ان کے تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ آج وزیر اعظم ہونے کے باوجود وہ ان پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت کرنا تو درکنار مقدمہ تک قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ اس اخلاقی برتری کے ہوتے مولانا فضل الرحمن کو عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ عمران خان کو مولانا سے لاحق ہے۔
وہ خطرہ جو بہت تیزی سے اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اور خطرہ بھی ایسا جو عمران خان نے خود آٹھ سال کی محنت سے اپنے لئے تیار کیا ہے۔ خان صاحب نے جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا !