فرخ منظور
لائبریرین
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)
مکمل غزل
نگہہ کی برچھیاں جو سہ سکے سینہ اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
مکدّر یا مصفّا جس کو یہ دونوں ہی یکساں ہوں
حقیقت میں وہی مے خوار ہے، پینا اسی کا ہے
حقیقت میں وہی مے خوار ہے، پینا اسی کا ہے
امیدیں جب بڑھیں حد سے طلسمی سانپ ہیں زاہد
جو توڑے یہ طلسم اے دوست گنجینا اسی کا ہے
جو توڑے یہ طلسم اے دوست گنجینا اسی کا ہے
کدورت سے دل اپنا پاک رکھ اے شادؔ پیری میں
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینا اسی کا ہے
کہ جس کو منہ دکھانا ہے یہ آئینا اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)