ثامر شعور
محفلین
جو بھی اس ذات میں پھیلا ہوا اچھا دیکھوں
کچھ بھی میرا نہیں اس میں سبھی تیرا دیکھوں
ہاتھ میں جتنے بھی ہیں کچے گھڑے ہیں سارے
پار کرنے کو مگر ایک میں دریا دیکھوں
کوئی تعبیر تو حق میں مرے لکھی جائے
اپنی آنکھوں سے کوئی خواب تو سچا دیکھوں
پھر فقط تو ہی نظر آئے مجھے چاروں طرف
تجھ کو فرصت میں کبھی بیٹھ کے اتنا دیکھوں
کتنا مشکل ہے کبھی بھاگتی صدیوں کا شمار
ایک پل میں کبھی عمر کو الجھا دیکھوں
وصل کے وعدے سبھی کل پہ اٹھا رکھے ہیں
ایک بس ہجر جسے آج پہ پھیلا دیکھوں
کون گزرا ہے مری روح کو چھو کر ایسے
ایک خوشبو کو دل و جان میں پھیلا دیکھوں
ساتھ چلتے ہیں لیے ایک ہی خواہش کا سفر
ہمسفر ہو تے بھی ثامرؔ جنہیں تنہا دیکھوں
کچھ بھی میرا نہیں اس میں سبھی تیرا دیکھوں
ہاتھ میں جتنے بھی ہیں کچے گھڑے ہیں سارے
پار کرنے کو مگر ایک میں دریا دیکھوں
کوئی تعبیر تو حق میں مرے لکھی جائے
اپنی آنکھوں سے کوئی خواب تو سچا دیکھوں
پھر فقط تو ہی نظر آئے مجھے چاروں طرف
تجھ کو فرصت میں کبھی بیٹھ کے اتنا دیکھوں
کتنا مشکل ہے کبھی بھاگتی صدیوں کا شمار
ایک پل میں کبھی عمر کو الجھا دیکھوں
وصل کے وعدے سبھی کل پہ اٹھا رکھے ہیں
ایک بس ہجر جسے آج پہ پھیلا دیکھوں
کون گزرا ہے مری روح کو چھو کر ایسے
ایک خوشبو کو دل و جان میں پھیلا دیکھوں
ساتھ چلتے ہیں لیے ایک ہی خواہش کا سفر
ہمسفر ہو تے بھی ثامرؔ جنہیں تنہا دیکھوں