جو بھی اس ذات میں پھیلا ہوا اچھا دیکھوں

ثامر شعور

محفلین
جو بھی اس ذات میں پھیلا ہوا اچھا دیکھوں
کچھ بھی میرا نہیں اس میں سبھی تیرا دیکھوں

ہاتھ میں جتنے بھی ہیں کچے گھڑے ہیں سارے
پار کرنے کو مگر ایک میں دریا دیکھوں

کوئی تعبیر تو حق میں مرے لکھی جائے
اپنی آنکھوں سے کوئی خواب تو سچا دیکھوں

پھر فقط تو ہی نظر آئے مجھے چاروں طرف
تجھ کو فرصت میں کبھی بیٹھ کے اتنا دیکھوں

کتنا مشکل ہے کبھی بھاگتی صدیوں کا شمار
ایک پل میں کبھی عمر کو الجھا دیکھوں

وصل کے وعدے سبھی کل پہ اٹھا رکھے ہیں
ایک بس ہجر جسے آج پہ پھیلا دیکھوں

کون گزرا ہے مری روح کو چھو کر ایسے
ایک خوشبو کو دل و جان میں پھیلا دیکھوں

ساتھ چلتے ہیں لیے ایک ہی خواہش کا سفر
ہمسفر ہو تے بھی ثامرؔ جنہیں تنہا دیکھوں​
 

طارق شاہ

محفلین
ثامر شعور صاحب
اشعار میں کوئی پیغام ، مقصدیت ، یا کوئی خاص تاثر نظر نہیں آیا
بیان بھی بندش کی وجہ سے to the point نہیں ہیں
مطلع :

جو بھی اس ذات میں پھیلا ہوا اچھا دیکھوں
کچھ بھی میرا نہیں اس میں سبھی تیرا دیکھوں

میں" پھیلا ہوا" کی شرط کیوں ،
دوسری بات، ذات (مونث) میں اچھا ( مذکر) ایسا کیا ہوسکتا ہے جو پھیلا بھی ہو
دونوں مصرعوں کی باہمی ربط یا مدد سے بھی ظاہر نہیں
اسے سوچ لیں دوبارہ ، کچھ بھی اس قسم یا اس طرز کا کہ:
جگ میں اچھائی کا اپنی جو میں چرچا دیکھوں
خود کو مقروض ہراک بات پہ تیرا دیکھوں
یوں ہی مثال کے طورپر ہی لکھ رہا ہوں آپ بہتر سوچ لیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں جتنے بھی ہیں کچے گھڑے ہیں سارے
پار کرنے کو مگر ایک میں دریا دیکھوں

اس میں بھی ہاتھ والے ہی گھڑے کچے ہیں کا بیان ہے
یعنی سر والا، کاندھوں یا کمر پر لٹکی صحیح ہے
مفہوم ، معنویت ؟ "کچے گھڑے ہیں اور دریا بھی پار کرنا ہے" ،
اس پر شعر ختم یہ کیا بات ہوئی

دسترس میں جو گھڑے ہیں وہ سبھی کچے ہیں
اب کہاں اِن سے بھلا پار میں دریا دیکھوں

کوئی خاص مضمون نہیں ۔ گسا پٹا خیال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تعبیر تو حق میں مرے لکھی جائے
اپنی آنکھوں سے کوئی خواب تو سچا دیکھوں

جس کی تعبیر موافق ہو مری قسمت کو
کاش ایسا بھی کوئی خواب میں سچا دیکھوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعور بھائی بقیہ کے اشعار بھی اسی تناظر میں دیکھ لیں
رات کے دو بج گئے ہیں ،میرے خیال میں، میری بات وضاحت طلب نہیں رہی
اور میں نے جوبھی اپنی دانست میں صحیح سمجھا وہ لکھ دیا
تاکہ ہم سب ایسی باتوں سے مستفیض ہوں
آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ، بہت خوش رہیں صاحب اور لکھتے رہیں :)
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ہاتھ میں جتنے بھی ہیں کچے گھڑے ہیں سارے
پار کرنے کو مگر ایک میں دریا دیکھوں

کتنا مشکل ہے کبھی بھاگتی صدیوں کا شمار
ایک پل میں کبھی عمر کو الجھا دیکھوں​

بہت خوب ثامر صاحب،

اچھے اشعار ہیں ۔ داد حاضرِ خدمت ہے۔
 

ثامر شعور

محفلین
ثامر شعور صاحب
اشعار میں کوئی پیغام ، مقصدیت ، یا کوئی خاص تاثر نظر نہیں آیا
بیان بھی بندش کی وجہ سے to the point نہیں ہیں
مطلع :

جو بھی اس ذات میں پھیلا ہوا اچھا دیکھوں
کچھ بھی میرا نہیں اس میں سبھی تیرا دیکھوں

میں" پھیلا ہوا" کی شرط کیوں ،
دوسری بات، ذات (مونث) میں اچھا ( مذکر) ایسا کیا ہوسکتا ہے جو پھیلا بھی ہو
دونوں مصرعوں کی باہمی ربط یا مدد سے بھی ظاہر نہیں
اسے سوچ لیں دوبارہ ، کچھ بھی اس قسم یا اس طرز کا کہ:
جگ میں اچھائی کا اپنی جو میں چرچا دیکھوں
خود کو مقروض ہراک بات پہ تیرا دیکھوں
یوں ہی مثال کے طورپر ہی لکھ رہا ہوں آپ بہتر سوچ لیں گے

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ہاتھ میں جتنے بھی ہیں کچے گھڑے ہیں سارے
پار کرنے کو مگر ایک میں دریا دیکھوں

اس میں بھی ہاتھ والے ہی گھڑے کچے ہیں کا بیان ہے
یعنی سر والا، کاندھوں یا کمر پر لٹکی صحیح ہے
مفہوم ، معنویت ؟ "کچے گھڑے ہیں اور دریا بھی پار کرنا ہے" ،
اس پر شعر ختم یہ کیا بات ہوئی

دسترس میں جو گھڑے ہیں وہ سبھی کچے ہیں
اب کہاں اِن سے بھلا پار میں دریا دیکھوں

کوئی خاص مضمون نہیں ۔ گسا پٹا خیال ہے

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کوئی تعبیر تو حق میں مرے لکھی جائے
اپنی آنکھوں سے کوئی خواب تو سچا دیکھوں

جس کی تعبیر موافق ہو مری قسمت کو
کاش ایسا بھی کوئی خواب میں سچا دیکھوں

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
شعور بھائی بقیہ کے اشعار بھی اسی تناظر میں دیکھ لیں
رات کے دو بج گئے ہیں ،میرے خیال میں، میری بات وضاحت طلب نہیں رہی
اور میں نے جوبھی اپنی دانست میں صحیح سمجھا وہ لکھ دیا
تاکہ ہم سب ایسی باتوں سے مستفیض ہوں
آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ، بہت خوش رہیں صاحب اور لکھتے رہیں :)
محترم طارق شاہ صاحب
آپ نے میری اس کوشش کواتنا زیادہ وقت دیا اس کے لیے بہت زیادہ شکریہ اور دعائیں
آپ کی تنقید اور اصلاح نے مجھے جو سوچنے پر مجبور کیا وہ کچھ یوں ہے۔
شاعری کو کس حد تک to the point ہونا چاہیے؟ میں تو شعر لکھتا ہی اس لئے ہوں کہ بات to the point کرنے سے بچ سکوں :)۔ آپ نے مطلع کی تفصیل میں اس بات کو بیاں کیا ہے مگر اس سے پھر یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا "کیا اچھا پھیلا " کی تشریح پڑھنے والے پہ چھوڑی جا سکتی ہے (ہو سکتا ہے پڑھنے والا مذکر بھی تلاش کر لے ) دوسری بات یہ کہ اچھائی کا چرچا تو بہت بعد کی بات ہے۔پہلے ذات میں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا
دوسرا سوال جو ذہن میں آیا وہ یہ ہے کہ کیا شعر کو لفظی معنوں میں سمجھا اور لکھا جانا چاہیئے ؟ ہاتھ میں گھڑے سے مراد دسترس میں گھڑے ہی تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں " اس بحث سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا" وغیرو
میری کسی بات سے اگر یہ تاثر ملا ہو کہ مجھےآپ کی تنقید اور اصلاح اچھی نہیں لگی تو پیشگی معذرت۔
آداب
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
محترم طارق شاہ صاحب
آپ نے میری اس کوشش کواتنا زیادہ وقت دیا اس کے لیے بہت زیادہ شکریہ اور دعائیں
آپ کی تنقید اور اصلاح نے مجھے جو سوچنے پر مجبور کیا وہ کچھ یوں ہے۔
شاعری کو کس حد تک to the point ہونا چاہیے؟ میں تو شعر لکھتا ہی اس لئے ہوں کہ بات to the point کرنے سے بچ سکوں :)۔ آپ نے مطلع کی تفصیل میں اس بات کو بیاں کیا ہے مگر اس سے پھر یہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا "کیا اچھا پھیلا " کی تشریح پڑھنے والے پہ چھوڑی جا سکتی ہے (ہو سکتا ہے پڑھنے والا مذکر بھی تلاش کر لے ) دوسری بات یہ کہ اچھائی کا چرچا تو بہت بعد کی بات ہے۔پہلے ذات میں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا
دوسرا سوال جو ذہن میں آیا وہ یہ ہے کہ کیا شعر کو لفظی معنوں میں سمجھا اور لکھا جانا چاہیئے ؟ ہاتھ میں گھڑے سے مراد دسترس میں گھڑے ہی تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں " اس بحث سے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا" وغیرو
میری کسی بات سے یہ اگر یہ تاثر ملا ہو کہ مجھےآپ کی تنقید اور اصلاح اچھی نہیں لگی تو پیشگی معذرت۔
آداب
ان تمام باتوں سے تمام عوامل پیشِ نظر لانے کے ساتھ ساتھ خودکو educate کرنا بھی پیش نظر ہوتا ہے
تخلیق کو تخلیقکار سے زیادہ یا بہتر کوئی اور نہیں جان سکتا ہے
جواب اور کشادہ دلی کے لئے متشکّر ہوں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں :):)
 
Top