جو تصور میں ہے اس کو کوئی کیا روشن کرے ٭ شعیب نظام

جو تصور میں ہے اس کو کوئی کیا روشن کرے
عکس گم گشتہ کو کیسے آئینہ روشن کرے

ہم گراں گوشوں میں حرف معتبر کہنے کو ہیں
دیکھیے کس کی سماعت یہ صدا روشن کرے

ڈوب جائے جب کبھی تاریکیوں میں روشنی
اک دیا سینے میں پھر اس کی نوا روشن کرے

منتظر ہیں سب ہوا کے چاند چہرے اور چراغ
دیکھیے یہ کیا بجھا دے اور کیا روشن کرے

آسماں کو چومتے شہروں میں فرصت ہے کسے
اس کھنڈر میں کون یہ بجھتا دیا روشن کرے

دھیرے دھیرے بجھ گئی جتنی دلوں میں آگ تھی
اب یہاں کیا ہے جسے دست دعا روشن کرے

رات کے جنگل میں،میں ہوں اور تری مبہم سی یاد
اک دیا ہے یہ کہاں تک راستہ روشن کرے

شعیب نظام​
 
Top