اک انسان
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے ابنِ آدم!!
ایک تیری چاہت ہے.... اور ایک میری چاہت ہے
مگر ہوگا وہی.... جو میری چاہت ہے!!
اگر تو نے خود کو سپرد کردیا اُس کے.... جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھ کو.... جو تیری چاہت ہے!!
اور اگر تونے نافرمانی کی اُس کی.... جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں.... جو تیری چاہت ہے
اور پھر ہوگا وہی.... جو میری چاہت ہے!!
اے ابنِ آدم!!
ایک تیری چاہت ہے.... اور ایک میری چاہت ہے
مگر ہوگا وہی.... جو میری چاہت ہے!!
اگر تو نے خود کو سپرد کردیا اُس کے.... جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھ کو.... جو تیری چاہت ہے!!
اور اگر تونے نافرمانی کی اُس کی.... جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں.... جو تیری چاہت ہے
اور پھر ہوگا وہی.... جو میری چاہت ہے!!
ایسا ہی ہوتا ہے.... حرف بہ حرف، لفظ بہ لفظ.... ایسے ہی ہوتا ہے!! اِک چاہت ہماری ہے جو چاہیں کریں، ہم چاہیں تو فرعون بنیں، ہم چاہیں تو موسیٰ.... ہم چاہیں ابراہیم بنیں ہم چاہیں نمرود.... ہماری چاہت ہے جیسا ہم چاہیں!! ایک چاہت ہماری ہوتی ہے خالصتاً ہماری چاہت، جس طرح ریوڑ میں سے کوئی بھیڑ بکری نکل کر ادھر اُدھر بھاگنے کی کوشش کرتی ہے اسی طرح انسان بھی کچھ خواہشات کچھ چاہتیں رکھتا ہے، وہ چاہتا ہے ایسا ہو، یوں ہو!! انسان کی خواہشات اُس کے اپنے تابع ہوتی ہیں، وہ جو چاہے!! تو پھر رب کی چاہت کیا ہے؟
حدیث قدسی سے جو بات میں سمجھ سکا ہوں اُس میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ دو الگ الگ چاہتیں ہیں، ایک ہماری اور ایک ہمارے رب کی۔ ہماری چاہتیں ہمارے زیر اثر ہیں ہمارا رب نہیں چاہتا کہ ہم ایسا چاہیں!! اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، عدل کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ جو جیسا کرے ویسا بھرے!! سو ہمارے اعمال کا جب بدلہ دیا جائےگا تو دراصل وہ ہماری چاہتوں کا ہی صلہ ہوگا.... اچھا یا برا!! جیسا ہم چاہیں گے ویسا ہم پائیں گے۔ اسی طرح ایک چاہت رب کی ہے اور اُس میں ہمارا عمل دخل نہیں!!
مثال کے طور پر ہم چاہتے ہیں ہمارا پیٹ بھر جائے۔ اب سامنے دو راستے ہیں ایک وہ جو ہم چاہیں اور ایک وہ جو رب چاہتا ہے۔ ہم یہ چاہیں کہ کسی سے پیسے چھین کر اپنے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کریں یا پھر ہم خود کو رب کی چاہت کے سپرد کرکے حلال ذرائع آمدن سے اپنا پیٹ بھریں۔ شکم پروری حلال سے بھی ہو جاتی ہے اور حرام سے بھی!! ایک اور چیز بھی ہوتی ہے کہ ٹھیک ہے دنیا گندم بوتی ہے، فصل کاٹتی ہے اور اُسے پیس کر روٹی بنا کر اپنا پیٹ بھرتی ہے لیکن ہم یہ چاہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بے نیاز کرکے ہمارا پیٹ ایسے ہی بھردے!! مشکل تو نہیں پروردگار کیلئے؟ وہ چاہے تو کرسکتا ہے.... مگر ”وہ“ چاہے تو!! ہم عام سے انسان ہیں، ممکن ہے ہمارا رب یہ چاہتا ہو کہ ہم اس سسٹم کے تحت چلیں!! میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرسکتا نعوذ باللہ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک ”میری“ چاہت ہے جس میں وہ دخل نہیں دیتا تو پھر جب ایک ”اُس کی“ چاہت ہے تو میں دخل دینے والا کون؟؟ جس طرح وہ زبردستی میری چاہت پر حاوی نہیں ہوتا کہ یہ چاہ اور یہ نہ چاہ!! اُسی طرح میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تو یوں چاہے!!
یقین اور ضد میں بڑا باریک سا فرق ہوتا ہے.... اگر اس فرق کو اور دنیا کے مزاج کو دیکھ کر الفاظ سے کھلواڑ کروں تو کچھ ایسا ہے کہ ”پس منظر پر ضد ”یقین کامل“ ہے اور منظر پر یقین کامل ”ضد“ ہے!!“ منظر نظر کے سامنے ہے ہر صاحب بصارت دیکھ سکتا ہے اور پس منظر فقط صاحب بصیرت دیکھ سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یقین کامل کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جس میں نمرود اُنہیں آگ میں پھینکنے کا حکم دیتا ہے۔ نمرود کو ”یقین“ تھا کہ یہ آگ ابراہیمؑ کو جلا ڈالے گی، اور حضرت ابراہیم کو ”ضد“ تھی کہ اس آگ میں جلانے کی تاثیر رکھنے والا کوئی اور ہے!! یہ یقین اور ضد میں نے دنیاوی حساب سے کہا ہے، اس پورے واقعے میں میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ ”چاہتے“ تھے کہ آگ گلزار بنے!! اللہ تعالیٰ نے آگ میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ جو اُس کی لپیٹ میں آئے جل جائے، نمرود کو فقط آگ پر یقین تھا اور ابراہیم کو آگ میں تاثیر رکھنے والے پر یقین تھا!! حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یقین یہ نہیں تھا کہ یہ آگ کے شعلے پھولوں کی طرح مہکیں گے، حضرت ابراہیم کی چاہت یہ نہیں تھی.... آگ پر نہیں آگ میں تاثیر رکھنے والے پر ایمان تھا!! آگ حضرت ابراہیم کی چاہت پر گلزار نہیں بنی.... اُس کی چاہت پر بنی جسے ابراہیم نے چاہا!!
میں آپ کو سچ سچ بتاتا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن میں کئی بار بھڑکتی آگ پر ہاتھ رکھا!! اس یقین کےساتھ کہ میں اللہ تعالیٰ کا ماننے والا ہوں اسلئے مجھ پر آگ اثر نہیں کرےگی۔ شائد میں معجزات.... بلکہ یہ تو بہت بڑا لفظ ہوگیا، کسی ”جادو“ وغیرہ کے چکر میں تھا، میں چاہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں تو یقینا اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہوں، میری وجہ سے انہونی ہوسکتی ہے!! اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد میں سوچتا ہوں.... یہ تو ”میری“ چاہت تھی۔ میں چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے آگ کو گلزار کردے!!
یقین آگ پر نہیں آگ میں تاثیر رکھنے والے پر رکھو!! اُسے آزماﺅ نہیں، یہ نہ چاہوں کہ جو تم چاہتے ہو وہ بھی ویسا چاہے.... خود کو سپرد کردو اُس کی چاہت کے!! وہ چاہے تو آگ کو گلزار کردے یا وہ چاہے تو جسم جلا کر راکھ کردے، جو”وہ“ چاہے....!! آج میرے پاس اپنی بات کہنے کےلئے الفاظ نہیں ہیں، فقط احساس ہے ممکن ہے میں اپنی بات زیادہ واضح نہ کرسکا ہوں، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جس سے میں وہ بات بیان کرسکوں جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ اوپر حدیث قدسی شیئر کی تھی، جسے پڑھ کر بس ایک مسکراہٹ اور خیال ذہن میں آگیا تھا وہ بھی شیئر کرتا چلوں....
”میرے مالک!! جب خود کو تیری چاہتوں کے سپرد کردیں تو ہمارے پاس فقط
ایک چاہت کے سوا بچتا ہی کیا ہے کہ ”جو تو چاہے....!!“
ایک چاہت کے سوا بچتا ہی کیا ہے کہ ”جو تو چاہے....!!“