کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل پیش ہے۔
جو تھی باقی رہی سہی کر لی !
شاعری میں پیمبری کر لی !
بے ضمیری سے جنگ مشکل تھی
پتھّروں سے صنم گری کر لی !
اس زمانے کو دیکھ کر ہم نے
پارسائی میں خود کمی کر لی !
خواب اپنے سجا کے بیٹھے ہیں
بند کمروں میں تازگی کر لی !
مستقل عاشقی تو تھی خود سے
تم سے الفت بھی عارضی کر لی !
سن کے اس کی فصیح خاموشی
اپنے الفاظ میں کمی کر لی !
کتنی خودداریوں کا خون ہوا
بات جب اس نے سرسری کر لی !
بوجھ سچ کا اٹھائے پھرتے ہیں
خود پہ ہر سمت اجنبی کر لی !
بجھ گیا دل تو رات پھر ہم نے
تلخ گوئی کی، شاعری کر لی !
کتنا دلکش سراب تھا کاشف !
اس محبّت میں اب کمی کر لی !
سیّد کاشف
جو تھی باقی رہی سہی کر لی !
شاعری میں پیمبری کر لی !
بے ضمیری سے جنگ مشکل تھی
پتھّروں سے صنم گری کر لی !
اس زمانے کو دیکھ کر ہم نے
پارسائی میں خود کمی کر لی !
خواب اپنے سجا کے بیٹھے ہیں
بند کمروں میں تازگی کر لی !
مستقل عاشقی تو تھی خود سے
تم سے الفت بھی عارضی کر لی !
سن کے اس کی فصیح خاموشی
اپنے الفاظ میں کمی کر لی !
کتنی خودداریوں کا خون ہوا
بات جب اس نے سرسری کر لی !
بوجھ سچ کا اٹھائے پھرتے ہیں
خود پہ ہر سمت اجنبی کر لی !
بجھ گیا دل تو رات پھر ہم نے
تلخ گوئی کی، شاعری کر لی !
کتنا دلکش سراب تھا کاشف !
اس محبّت میں اب کمی کر لی !
سیّد کاشف