جو تھی باقی رہی سہی کر لی ! ۔۔ ایک غزل

ایک غزل پیش ہے۔
جو تھی باقی رہی سہی کر لی !
شاعری میں پیمبری کر لی !

بے ضمیری سے جنگ مشکل تھی
پتھّروں سے صنم گری کر لی !

اس زمانے کو دیکھ کر ہم نے
پارسائی میں خود کمی کر لی !

خواب اپنے سجا کے بیٹھے ہیں
بند کمروں میں تازگی کر لی !

مستقل عاشقی تو تھی خود سے
تم سے الفت بھی عارضی کر لی !

سن کے اس کی فصیح خاموشی
اپنے الفاظ میں کمی کر لی !

کتنی خودداریوں کا خون ہوا
بات جب اس نے سرسری کر لی !

بوجھ سچ کا اٹھائے پھرتے ہیں
خود پہ ہر سمت اجنبی کر لی !

بجھ گیا دل تو رات پھر ہم نے
تلخ گوئی کی، شاعری کر لی !

کتنا دلکش سراب تھا کاشف !
اس محبّت میں اب کمی کر لی !

سیّد کاشف
 
بداھیاں۔۔۔کاشف صاحب بَھوں چنگا لکھدے او دل خوش ہو گیا تساں دا کلام پڑھ کے ۔۔۔سچا سائیں تساں تو بَھوں خوش رکھے تے لمی حیاتی دیوے آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کاشف اسرار احمد بھائی ! اچھی غزل ہے! کئی اچھے اشعار ہیں ۔ مطلع کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔ امید ہے وضاحت فرمائیں گے ۔ میری ناقص رائے میں جب موضوع مذہبی لحاظ سے حساس نوعیت کا ہو یا اس مین مذہبی تلازمات استعمال کئے جارہے ہوں تو ہر ممکنہ احتیاط سے کام لینا چاہیئے ۔ ایسے اشعار میں کسی قسم کی لفظی یا معنوی تعقید کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی ۔ ظاہر ہے کہ شاعر اپنے شعر کے ساتھ تشریحی نوٹ تو نہیں لگاتا ۔ چنانچہ قاری کے لئے کسی قسم کا ابہام چھوڑنا نہ صرف نامناسب بلکہ باعثِ تکدر بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ ویسے آپ بہتر جانتے ہیں ۔

میرا خیال ہے کہ اس شعر میں آپ پیام بری کہنا چاہتے ہیں لیکن وزن کی مجبوری سے پیمبری کہنا پڑا۔ لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ دونوں بالکل الگ الگ الفاظ ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ براہِ کرم وضاحت فرمادیں ۔
 
Top