جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں----- سیدانورجاویدہاشمی

مغزل

محفلین
غزل

جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں
دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں

مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے
وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں

بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں

نگلا ہے زمین نے بستیوں کو
بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں

اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر
سب کھوٹ کپٹ کے رہ گئے ہیں

کرگس نے دکھادیا ہے ٹھینگا
شہباز جھپٹ کے رہ گئے ہیں

غالب ہے، نہ میر یاد ہم کو
ہاں! روٹیاں رَٹ کے رہ گئے ہیں

جیون بھی تمام ہو رہے گا
بس موت کے جھٹکے رہ گئے ہیں

سیدانورجاویدہاشمی
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، لیکن دو ایک قافئے سمجھ میں نہیں آئے، ممکن ہے کہ پنجابی استعمال ہو جیسے ‘روٹیاں رٹنا‘
اور یہ شعر
بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں
پہلا مصرع وزن میں بھی نہیں آتا۔
 

محمد امین

لائبریرین
یہ "رٹ" غالبا رٹ لگانے کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے کہا جاتا ہے نا کہ فلاں‌چیز کی رٹ لگا لی ہے، ضد کے معنیٰ میں شاید۔۔
 

مغزل

محفلین
اچھی غزل ہے، لیکن دو ایک قافئے سمجھ میں نہیں آئے، ممکن ہے کہ پنجابی استعمال ہو جیسے ‘روٹیاں رٹنا‘
اور یہ شعر
بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں
پہلا مصرع وزن میں بھی نہیں آتا۔

شکریہ بابا جانی ، آج کل ہاشمی صاحب قوافی پر تجربے کر رہے ہیں۔
وہی صحیح بیان کر سکیں‌گے ، وزن میں‌کمی والا مصرع انہیں بتا دیا گیا ہے ۔
بہت بہت شکریہ بابا جانی
 

مغزل

محفلین
یہ "رٹ" غالبا رٹ لگانے کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے کہا جاتا ہے نا کہ فلاں‌چیز کی رٹ لگا لی ہے، ضد کے معنیٰ میں شاید۔۔


شکریہ امین صاحب ، بندہ پروری ہے جناب،

واہ، لاجواب۔
بہت شکریہ مغل صاحب شیئر کرنے کیلیے!

بہت بہت شکریہ وارث صاحب، بہت شکریہ
 
Top