مغزل
محفلین
غزل
جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں
دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں
مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے
وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں
بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں
نگلا ہے زمین نے بستیوں کو
بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں
اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر
سب کھوٹ کپٹ کے رہ گئے ہیں
کرگس نے دکھادیا ہے ٹھینگا
شہباز جھپٹ کے رہ گئے ہیں
غالب ہے، نہ میر یاد ہم کو
ہاں! روٹیاں رَٹ کے رہ گئے ہیں
جیون بھی تمام ہو رہے گا
بس موت کے جھٹکے رہ گئے ہیں
سیدانورجاویدہاشمی
جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں
دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں
مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے
وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں
بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں
نگلا ہے زمین نے بستیوں کو
بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں
اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر
سب کھوٹ کپٹ کے رہ گئے ہیں
کرگس نے دکھادیا ہے ٹھینگا
شہباز جھپٹ کے رہ گئے ہیں
غالب ہے، نہ میر یاد ہم کو
ہاں! روٹیاں رَٹ کے رہ گئے ہیں
جیون بھی تمام ہو رہے گا
بس موت کے جھٹکے رہ گئے ہیں
سیدانورجاویدہاشمی