شعیب صفدر
محفلین
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جوراس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھر گئے
جنہیں کر سکا نہ قبول میں،وہ شریک راہِ سفر ہوئے
جو مری طلب مِری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مری دھڑکنوں کے قریب تھے ،مری چاہ تھے ،مرا خواب تھے
جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
۔(اعتبار ساجد)۔
جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جوراس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھر گئے
جنہیں کر سکا نہ قبول میں،وہ شریک راہِ سفر ہوئے
جو مری طلب مِری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مری دھڑکنوں کے قریب تھے ،مری چاہ تھے ،مرا خواب تھے
جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
۔(اعتبار ساجد)۔