جو دل اپنا الفت میں ہارے ہوئے ہیں
وہی غم کی نظروں میں پیارے ہوئے ہیں
کسی سمت یونہی چلا جا رہا ہوں؟
نہیں! مجھ کو پہلے اشارے ہوئے ہیں
مجھے چاند تکنے سے کیا روک پائیں
کبھی ایسا روشن ستارے ہوئے ہیں؟
ہمیں اور کیا چاہیے اب جہاں سے
یہی ہے بہت وہ ہمارے ہوئے ہیں
چلیں دیکھتے ہیں کہ دیکھیں وہ کس کو
سبھی نے اگر منہ سنوارے ہوئے ہیں
وہ باتوں ہی باتوں میں یوں پاس آئے
کہ لمحوں میں وارے نیارے ہوئے ہیں
یوں خوش ہوں کہ جیسے جہاں مل گیا ہے
مگر عشق میں بس خسارے ہوئے ہیں
عظیم اپنی اوقات میں رہیے گا آپ
بہت آپ سے اس نے مارے ہوئے ہیں
***