مصطفیٰ زیدی جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں ۔مصطفیٰ زیدی

شعیب خالق

محفلین
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں

کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں

میرا تو جرم تذکرہ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں

آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں

اے دل ذرا سی جرأت رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں
مصطفیٰ زیدی​
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ شعیب صاحب مصطفٰی زیدی کی خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے۔

عموماً شعرا اسطرح کے قوافی نہیں باندھتے جیسے کہ مصطفٰی زیدی نے اس غزل میں باندھا ہے یعنی تا کے ساتھ ط کا قافیہ، بہرحال زیدی کی یہ غزل نئے شعرا کیلیئے سند کا کام دے سکتی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ شعیب - وارث صاحب جو بات کر رہے ہیں وہ اعجاز صاحب نے بھی کی تھی کی بات، ہات، نشاط، کا قافیہ بھی شعرا استعمال کرتے ہیں‌- اور اس غزل پر خاص طور پر فاتح کی توجہ دلانا چاہوں گا کہ شعرا ایسے بھی باندھتے ہیں-
 

فرخ منظور

لائبریرین
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں​
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں​

کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں

میرا تو جرم تذکرۂ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہات میں

آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سی بات میں

اے دل ذرا سی جرأت رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں

(مصطفیٰ زیدی)​
 
Top