جو سچ کہوں بہ غمِ انتظار گزری ہے

یہ خاکِ راہ نہ تھی جو کہ یار گزری ہے
ہوا کی موج پہ آتش چنار گزری ہے

بلا کا ساتھ لیے اک فشار گزری ہے
بہ فرقِ دشت و سرِ کوہسار گزری ہے

سمندِ وقت پہ گویا سوار گزری ہے
عمادِ چرخ کے کاندھوں پہ بار گزری ہے

فلک پہ گردشِ لیل و نہار گزری ہے
زمین پہ فصلِ خزاں کی بہار گزری ہے

جمالِ یار کی دزدیدہ اک کرن دل سے
نجانے کیسے مگر آشکار گزری ہے

وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے

تمہارے رخ کی حسیں چاندنی کے سائے تلے
جو رات گزری فقط وہ بکار گزری ہے

اگرچہ ٹھہری تھی ایک انبساطِ یکتا پر
جو سچ کہوں بہ غمِ انتظار گزری ہے

یہ ان کی بات کہ اوقات جانیے اپنے
چبھی ہے دل کو مگر غمگسار گزری ہے

غزل یہ حضرتِ ریحانؔ کی رواں ہے بہت
سروں سے بحروں کے یہ جویبار گزری ہے
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت اشعار سے مزین غزل۔ ما شا اللہ

وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے

واہ واہ ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ ڈھیروں داد
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت عمدہ غزل پیش کی ریحان صاحب ۔ ۔ ۔
فیض صاحب یاد آگئے ۔ ۔ مگر اُن کی تو پھر بھی کافی ساری سمجھ آجاتی ہے ۔ ۔ ۔ :)
 
بہت ہی خوبصورت اشعار سے مزین غزل۔ ما شا اللہ

وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے

واہ واہ ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ ڈھیروں داد
ذرہ نوازی ہے آپ کی، بہت شکریہ.
خوب غزل ہے قریشی صاحب۔
حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں جناب.
عنایت!
 
بہت عمدہ غزل پیش کی ریحان صاحب ۔ ۔ ۔
فیض صاحب یاد آگئے ۔ ۔ مگر اُن کی تو پھر بھی کافی ساری سمجھ آجاتی ہے ۔ ۔ ۔ :)
بہت شکریہ اکمل بھائی. اصل میں جو مضامین ذہن میں ہوتے ہیں وہ اکثر خوبی سے نظم نہیں ہو پاتے لیکن عام مضامین پر شاعری کرنے پر دل مائل نہیں ہوتا.
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ خاکِ راہ نہ تھی جو کہ یار گزری ہے
ہوا کی موج پہ آتش چنار گزری ہے

بلا کا ساتھ لیے اک فشار گزری ہے
بہ فرقِ دشت و سرِ کوہسار گزری ہے

سمندِ وقت پہ گویا سوار گزری ہے
عمادِ چرخ کے کاندھوں پہ بار گزری ہے

فلک پہ گردشِ لیل و نہار گزری ہے
زمین پہ فصلِ خزاں کی بہار گزری ہے

جمالِ یار کی دزدیدہ اک کرن دل سے
نجانے کیسے مگر آشکار گزری ہے

وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے

تمہارے رخ کی حسیں چاندنی کے سائے تلے
جو رات گزری فقط وہ بکار گزری ہے

اگرچہ ٹھہری تھی ایک انبساطِ یکتا پر
جو سچ کہوں بہ غمِ انتظار گزری ہے

یہ ان کی بات کہ اوقات جانیے اپنے
چبھی ہے دل کو مگر غمگسار گزری ہے

غزل یہ حضرتِ ریحانؔ کی رواں ہے بہت
سروں سے بحروں کے یہ جویبار گزری ہے
برادرم ریحان ، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ غزل آپ کے عمومی معیار کو نہیں پہنچ سکی۔ اکثر اشعار میں مسائل ہیں ۔ ابلاغ نہیں ہورہا۔ میری ناقص رائے میں کئی اشعار میں ابہام کا عنصر غالب ہے۔
یہ خاکِ راہ نہ تھی جو کہ یار گزری ہے
ہوا کی موج پہ آتش چنار گزری ہے
مطلع اول سے ظاہر ہورہا ہے کہ موسمِ خزاں کی ہوا میں اڑتے ہوئے چنار کے سرخ پتوں کا ذکر ہے ۔لیکن اس شعر میں مسئلہ یہ ہے کہ آتش چنار کو بغیر اضافت استعمال کیا گیا ہے جو ٹھیک نہیں اور آتشِ چنار ظاہر ہے کہ وزن میں نہیں آتا ۔ آتش چنار اردو میں بغیر اضافت مستعمل نہیں ہے۔
اس کے بعد کے تین مطالع میں چونکہ فاعل موجود نہیں اس لیے ظاہر ہوتاہے کہ یہ تینوں اشعار مطلعِ اول سے متصل اور مربوط ہیں یعنی غزل کے پہلے چار اشعار قطع بند ہیں اور ان سب میں آتشِ چنار ہی کا ذکر ہورہا ہے ۔ اچھا ہوتا کہ ان چار اشعار کے بعد آپ کچھ فاصلہ چھوڑ کر قطعہ بند کی نشاندہی کردیتے ۔ لیکن ان تینوں مطالع میں بھی کچھ نہ کچھ گڑبڑیشن ہے ۔

لیے ہوئے اک عجب ہی فشار گزری ہے
بہ فرقِ دشت و سرِ کوہسار گزری ہے
سرِ کوہسار کی رعایت سے فرقِ دشت کہنا اچھی کوشش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فرقِ دشت کی ترکیب میں معقولیت نہیں ہے ۔ تشبیہ اور تجسیم کے لیے معقولیت تو بنیادی شرط ہوتی ہے ۔ دشت میں وسعت ، بسیط ، فراخی اور کشادگی وغیرہ کی صفات ہوتی ہیں اسی بنا پر دامنِ دشت ، محیطِ دشت وغیرہ معقول تراکیب ہیں لیکن دشت کا سر کیسے ہوسکتا ہے ؟

سمندِ وقت پہ گویا سوار گزری ہے
عمادِ چرخ کے کاندھوں پہ بار گزری ہے
اس مطلع میں مصرعِ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟ آتشِ چنار عمادِ چرخ کے کاندھوں پر کس طرح گراں گزر سکتی ہے؟ یہ ابلاغ نہیں ہورہا ۔

فلک پہ گردشِ لیل و نہار گزری ہے
زمین پہ فصلِ خزاں کی بہار گزری ہے
پہلی بات تو یہ کہ گردش گزرنا خلافِ محاورہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ گردشِ لیل و نہار تو زمین کے ساتھ مخصوص ہے ۔ فلک پر گردشِ لیل و نہار کا گزرنا غیر معروف اور مبہم ہے ۔

وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے
یہ شعر ی خیال اچھا ہے لیکن دونوں مصرع لسانی اعتبار سے مطابق نہیں ۔ چونکہ دوسرے مصرع میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس لیے پہلا مصرع مستقبل کے بجائے زمانہ حال میں ہونا چاہیے: یعنی اس کی نثر یوں بنے گی: وہ میری بات کو کہاں ( یا کب) خاطر میں لاتے ہیں ، کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے۔

تمہارے رخ کی حسیں چاندنی کے سائے تلے
جو رات گزری فقط وہ بکار گزری ہے
دوسرے مصرع میں فقط کا لفظ اٹک رہا ہے۔ جو رات گزری وہی تو بکار گزری ہے کہنے سے بھی مطلب تو ادا ہوجاتا ہے

اگرچہ ٹھہری تھی ایک انبساطِ یکتا پر
جو سچ کہوں بہ غمِ انتظار گزری ہے
یہ شعر اچھا ہے لیکن پہلے مصرع میں ٹھہری سے پہلے کسی لفظ کی کمی محسوس ہورہی ہے ۔ وزن سے قطعِ نظر کرتے ہوئےاگر یوں کہیں کہ : اُن سے ٹھہری تھی ۔۔۔۔ ، بات ٹھہری تھی ۔۔۔۔۔۔: تو واضح ہوجائے گا ۔ کسی بات کا ٹھہرنا بمعنی کسی بات کا طے ہونامعروف محاورہ ہے ۔

یہ اس کی بات کہ اوقات جانچیے اپنے
چبھی ہے دل کو مگر غمگسار گزری ہے
حیثیت کے معنوں میں اوقات کا لفظ مؤنث ہے ۔ بات گراں گزر سکتی ہے لیکن بات کا غمگسار گزرنا محاورہ نہیں ہے ۔

غزل یہ حضرتِ ریحانؔ کی رواں ہے بہت
سروں سے بحروں کے یہ جویبار گزری ہے
سمندر کا سر معقول تجسیم نہیں ہے۔ سروں سے بحروں کے ذوق پر گراں گزرتا ہے۔ اردو میں درست املا جوئبار ہے ۔

ریحان بھائی ، معذرت کہ میں یہ باتیں کہے بغیر رہ نہیں سکا ۔ دراصل آپ کی غزل میں عموماً اس قسم کے اسقام نہیں ہوتے چنانچہ مجھے یہ خلافِ معمول لگا کہ یہ اشعار آپ کے معیار تک نہیں پہنچ سکے ۔ شاید آپ اس غزل کو زیادہ وقت نہیں دے سکے ۔ نظرِ ثانی و ثالث وغیرہ کی ضرورت ہے۔:):):)
 
گرامی قدر ظہیرصاحب کا مراسلہ طلبائے ادب کے لیے بہت ہی معلومات افزاء ہے ۔
بہت بہت بہت شکریہ جنابِ محترم ،اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے، آمین ثم آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمی کمی سی تھی کچھ رنگ و بوے گلشن میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لبِ بہار سے نکلی ہوئی دعا تم ہو
 
آخری تدوین:
مفصل تبصرے کے لیے شکریہ جناب ظہیراحمدظہیر.
آتش چنار اردو میں بغیر اضافت مستعمل نہیں ہے۔
ایک لوکل فٹبال کلب کا نام تھا اور لوگ بغیر اضافت کے ہی ادا کرتے سنے.
رِ کوہسار کی رعایت سے فرقِ دشت کہنا اچھی کوشش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فرقِ دشت کی ترکیب میں معقولیت نہیں ہے ۔ تشبیہ اور تجسیم کے لیے معقولیت تو بنیادی شرط ہوتی ہے ۔ دشت میں وسعت ، بسیط ، فراخی اور کشادگی وغیرہ کی صفات ہوتی ہیں اسی بنا پر دامنِ دشت ، محیطِ دشت وغیرہ معقول تراکیب ہیں لیکن دشت کا سر کیسے ہوسکتا ہے ؟
پہلے بسطِ دشت لکھا تھا لیکن وہ رواں نہیں تھا، اگر کوئی مناسب متبادل ذہن میں آیا تو اسے تبدیل کر دوں گا.
اس مطلع میں مصرعِ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟ آتشِ چنار عمادِ چرخ کے کاندھوں پر کس طرح گراں گزر سکتی ہے؟ یہ ابلاغ نہیں ہورہا ۔
یعنی ابلا غ تو ہو گیا. 'کس طرح' شاعری کے تناظر میں عجیب معلوم ہوتا ہے.
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
یہ دریائے معاصی کس جگہ واقع ہے اور غالب اس میں گھسے کس طرح؟
دوسری بات یہ کہ گردشِ لیل و نہار تو زمین کے ساتھ مخصوص ہے ۔ فلک پر گردشِ لیل و نہار کا گزرنا غیر معروف اور مبہم ہے
آسمان کو گردوں بھی کہا جاتا ہے. دن اور رات کی گردش آسمان پر بھی رونما ہوتی ہے.
پہلی بات تو یہ کہ گردش گزرنا خلافِ محاورہ ہے۔
فلک پہ ایک کیفیت گزری ہے جسے گردشِ لیل و نہار کہتے ہیں. محاورے کی تفہیم جو آپ کے ذہن میں ہے مجھے کچھ تنگ معلوم ہوتی ہے.
یہ شعر ی خیال اچھا ہے لیکن دونوں مصرع لسانی اعتبار سے مطابق نہیں ۔ چونکہ دوسرے مصرع میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس لیے پہلا مصرع مستقبل کے بجائے زمانہ حال میں ہونا چاہیے: یعنی اس کی نثر یوں بنے گی: وہ میری بات کو کہاں ( یا کب) خاطر میں لاتے ہیں ، کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے۔
مجھے تو لسانی اعتبار سے غلط نہیں معلوم ہوتا تاہم آپ کی نشاندہی پر اسے تبدیل کر دیتا ہوں:
وہ میری بات کو خاطر میں لائے ہی کب ہیں
دوسرے مصرع میں فقط کا لفظ اٹک رہا ہے۔ جو رات گزری وہی تو بکار گزری ہے کہنے سے بھی مطلب تو ادا ہوجاتا ہے
اس صورت میں دو حرفی تو اٹک رہا ہے.
حیثیت کے معنوں میں اوقات کا لفظ مؤنث ہے ۔ بات گراں گزر سکتی ہے لیکن بات کا غمگسار گزرنا محاورہ نہیں ہے ۔
اگر بات گراں گزر سکتی ہے تو غمگسار کیوں نہیں؟ اتنی گنجائش تو زبان میں ہونی چاہیے، کہ نہیں؟
شعر کچھ خاص نہیں ہے اسے حذف کرنے کا ہی سوچ رہا تھا.
سمندر کا سر معقول تجسیم نہیں ہے۔ سروں سے بحروں کے ذوق پر گراں گزرتا ہے۔ اردو میں درست املا جوئبار ہے ۔
پانی سر سے گزرنا تو محاورہ ہے، اس نسبت سے کہا تھا. میرے ذوق کے مطابق ہے.
سمندروں کی لہروں میں کہیں کچھ سرنما تعمیرات نظر آ سکتی ہیں.
شاید آپ اس غزل کو زیادہ وقت نہیں دے سکے ۔ نظرِ ثانی و ثالث وغیرہ کی ضرورت ہے۔:):):)
نطرِ ثانی و ثالث و رابع وغیرہ کا وقت اب میسر ہوتا ہی نہیں. یوں بھی
ع
اب تو برسوں میں کبھی ایک غزل ہوتی ہے

یہاں ارسال کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ بعد میں کبھی دیکھنے کا خیال آئے تو دیکھ لی جائے. جس نوعیت کے اشعار اور جس طرز کی زبان کا میں اکثر انتخاب کرتا ہوں اس میں لسانی اسقام اور ابلاغ کے مسائل کے امکانات ہمیشہ روشن رہتے ہیں. اس کا کچھ حل اگر وقت ملا تو سوچیں گے.
 

La Alma

لائبریرین
عمدہ کلام ہے۔
شروع کے چند اشعار سے مسلسل غزل کا گمان ہوا۔
یہ ان کی بات کہ اوقات جانیے اپنے
چبھی ہے دل کو مگر غمگسار گزری ہے
اوقات کی بجائے اگر مصرعے میں کہیں ، مرتبہ ، لے کر آتے تو یہ بات غم گساری کے زیادہ قرین تھی۔
 

یاسر شاہ

محفلین
وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے
خوب ۔
آپ کی غزل دیکھتے ہی ایک فی البدیہہ شعر ہوا :

دکھا کے کارگزاری یہ کار گزری ہے
فراری ٹریک سے ہو کر فرار گزری ہے

آپ لنگئسٹک ذوق بھی رکھتے ہیں ،سر دست یہ فرمائیے کہ" ٹریک " کا یہ وزن ہی ٹھیک ہے یا بروزن" دفاع" درست ہے؟
 
آپ لنگئسٹک ذوق بھی رکھتے ہیں ،سر دست یہ فرمائیے کہ" ٹریک " کا یہ وزن ہی ٹھیک ہے یا بروزن" دفاع" درست ہے؟
آپ نے درست باندھا ہے. track میں tr ایک consonant cluster ہے.
T لیکن ٹ نہیں ہے ایک مختلف آواز ہے، ت کے زیادہ قریب ہے. R بھی اردو والا ر نہیں ہے ایک مختلف آواز ہے( زیادہ تر لہجوں میں).
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریحان بھائی ، کسی علاقے کے عوام اپنے فٹبال کلب کا جو چاہے نام رکھ سکتے ہیں اور اسے جیسے چاہے بول سکتے ہیں لیکن شاعری کے لیے دلیل تو معیاری اردو اور مسلمہ لسانی اصولوں سے لی جائے گی ۔ اردو میں فکِ اضافت کے ساتھ بس آٹھ دس گنے چنے الفاظ ہی مستعمل ہیں ورنہ تو تمام فارسی اضافی تراکیب اضافت کے ساتھ ہیں۔ اردو نظم و نثر میں لفظ آتش کی تمام تراکیب بشمول آتشِ چنار اضافت کے ساتھ ہی استعمال ہوتی ہیں۔ آپ تو شاید کشمیر سے ہیں سو جانتے ہی ہوں گے کہ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتشِ چنار کے نام سے لکھی تھی۔

ریحان ، عمادِ چرخ والے شعر پر میرا تبصرہ آپ نے پورا نہیں پڑھا ۔ میرا سوال یہ تھا کہ اس مطلع میں مصرعِ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟پہلے مصرع میں سمندِ وقت یعنی وقت کا تیز رفتار گھوڑا تو سمجھ میں آنے والی تشبیہ ہے اور عام مستعمل ہے لیکن دوسرے مصرع میں عمادِ چرخ آپ نے کس شے کو کہا ہے یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ کس طرح والا سوال ضمنی تھا یعنی یہ کہ عمادِ چرخ کیا چیز ہے اور آتشِ چنار اس کے کاندھوں پر کس طرح بار گزری ہے؟
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جہاں تک غالب کے خوبصورت مصرع سے متعلق سوال ہے تو دریائے معاصی کی تشبیہ انتہائی معقول ہے اور عام فہم ہے ۔ جب کوئی شخص گناہ آلود طرز زندگی اپنا کر اس میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے تو اس موقع کے لیے گناہوں کی دلدل عام مستعمل ہے ۔ یہ دلدل کہیں اور نہیں ہوتی بلکہ گناہگار کی اپنی زندگی ہی کو تشبیہتاً کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح دریائے معاصی کی تشبیہ ہے۔ غالب نے جب خود میں گناہ کرنے کی کم حوصلگی پائی تو اسے تنک آبی سے تعبیر کرتے ہوئے دریائے معاصی کے خشک ہونے کا شکوہ کیا۔
حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ تشبیہ دینے کے لیے مشبہ کے ساتھ مشبہ بہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آپ کے شعر میں عمادِ چرخ کس چیز کو کہا گیا ہے اور آتشِ چنار اس کے کاندھوں پرکس طرح گراں گزری ہے میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ اگر اس کی کچھ وضاحت فرمائیں تو ممنون رہوں گا۔

جس نوعیت کے اشعار اور جس طرز کی زبان کا میں اکثر انتخاب کرتا ہوں اس میں لسانی اسقام اور ابلاغ کے مسائل کے امکانات ہمیشہ روشن رہتے ہیں. اس کا کچھ حل اگر وقت ملا تو سوچیں گے.
یہ حل آپ ضرور سوچیے۔ ابلاغ کے موضوع پر تو دنیا کی ہر زبان میں بے تحاشا لٹریچر موجود ہے۔ میری ناقص رائے میں کامیاب شاعری (اور نثر) نام ہی ابلاغ کا ہے۔ احساس یا تخیل کو الفاظ کے ایسے قالب میں ڈھالنا کہ وہ مجروح ہوئے بغیر قاری تک پہنچ جائے ، فنِ شاعری کی تعریف ہے ۔ محض تخیل یا احساس کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسے قاری تک پہنچانے کا فن آنا ضروری ہے ورنہ تو المعنی فی بطن الشاعر والی بات ہوجاتی ہے اور یہ قدیم مثل دنیا میں کسی وجہ سے ہی مشہور چلی آتی ہے۔

ریحان بھائی ، بحث و مباحثہ یا بحث برائے بحث مقصود نہیں۔ یہاں اردو محفل پر میں جن احباب کی شاعری ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں ان میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ غزل مجھے آپ کے عمومی معیار سے پست لگی تو اس کا اظہار کردیا۔ یوں تو میں مختصراً ایک جملے میں عدم ابلاغ کی نشاندہی کرکے فارغ ہوسکتا تھا لیکن مفصل اس لیے لکھا کہ ایک قاری کی طرف سے شاعر کو فیڈ بیک مل جائے۔ میری ناقص رائے میں مدلل تبصرہ کسی بھی فن کی بہتری کے لیے روشنی کا کام دیتا ہے۔ :)
 
آخری تدوین:
ریحان بھائی ، کسی علاقے کے عوام اپنے فٹبال کلب کا جو چاہے نام رکھ سکتے ہیں اور اسے جیسے چاہے بول سکتے ہیں لیکن شاعری کے لیے دلیل تو معیاری اردو اور مسلمہ لسانی اصولوں سے لی جائے گی ۔ اردو میں فکِ اضافت کے ساتھ بس آٹھ دس گنے چنے الفاظ ہی مستعمل ہیں ورنہ تو تمام فارسی اضافی تراکیب اضافت کے ساتھ ہیں۔ اردو نظم و نثر میں لفظ آتش کی تمام تراکیب بشمول آتشِ چنار اضافت کے ساتھ ہی استعمال ہوتی ہیں۔ آپ تو شاید کشمیر سے ہیں سو جانتے ہی ہوں گے کہ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری آتشِ چنار کے نام سے لکھی تھی۔

ریحان ، عمادِ چرخ والے شعر پر میرا تبصرہ آپ نے پورا نہیں پڑھا ۔ میرا سوال یہ تھا کہ اس مطلع میں مصرعِ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟پہلے مصرع میں سمندِ وقت یعنی وقت کا تیز رفتار گھوڑا تو سمجھ میں آنے والی تشبیہ ہے اور عام مستعمل ہے لیکن دوسرے مصرع میں عمادِ چرخ آپ نے کس شے کو کہا ہے یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ کس طرح والا سوال ضمنی تھا یعنی یہ کہ عمادِ چرخ کیا چیز ہے اور آتشِ چنار اس کے کاندھوں پر کس طرح بار گزری ہے؟
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جہاں تک غالب کے خوبصورت مصرع سے متعلق سوال ہے تو دریائے معاصی کی تشبیہ انتہائی معقول ہے اور عام فہم ہے ۔ جب کوئی شخص گناہ آلود طرز زندگی اپنا کر اس میں دھنستا ہی چلا جاتا ہے تو اس موقع کے لیے گناہوں کی دلدل عام مستعمل ہے ۔ یہ دلدل کہیں اور نہیں ہوتی بلکہ گناہگار کی اپنی زندگی ہی کو تشبیہتاً کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح دریائے معاصی کی تشبیہ ہے۔ غالب نے جب خود میں گناہ کرنے کی کم حوصلگی پائی تو اسے تنک آبی سے تعبیر کرتے ہوئے دریائے معاصی کے خشک ہونے کا شکوہ کیا۔
حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ تشبیہ دینے کے لیے مشبہ کے ساتھ مشبہ بہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آپ کے شعر میں عمادِ چرخ کس چیز کو کہا گیا ہے اور آتشِ چنار اس کے کاندھوں پرکس طرح گراں گزری ہے میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ اگر اس کی کچھ وضاحت فرمائیں تو ممنون رہوں گا۔


یہ حل آپ ضرور سوچیے۔ ابلاغ کے موضوع پر تو دنیا کی ہر زبان میں بے تحاشا لٹریچر موجود ہے۔ میری ناقص رائے میں کامیاب شاعری (اور نثر) نام ہی ابلاغ کا ہے۔ احساس یا تخیل کو الفاظ کے ایسے قالب میں ڈھالنا کہ وہ مجروح ہوئے بغیر قاری تک پہنچ جائے ، فنِ شاعری کی تعریف ہے ۔ محض تخیل یا احساس کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسے قاری تک پہنچانے کا فن آنا ضروری ہے ورنہ تو المعنی فی بطن الشاعر والی بات ہوجاتی ہے اور یہ قدیم مثل دنیا میں سے کسی وجہ سے ہی مشہور چلی آتی ہے۔

ریحان بھائی ، بحث و مباحثہ یا بحث برائے بحث مقصود نہیں۔ یہاں اردو محفل پر میں جن احباب کی شاعری ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں ان میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ غزل مجھے آپ کے عمومی معیار سے پست لگی تو اس کا اظہار کردیا۔ یوں تو میں مختصراً ایک جملے میں عدم ابلاغ کی نشاندہی کرکے فارغ ہوسکتا تھا لیکن مفصل اس لیے لکھا کہ ایک قاری کی طرف سے شاعر کو فیڈ بیک مل جائے۔ میری ناقص رائے میں مدلل تبصرہ کسی بھی فن کی بہتری کے لیے روشنی کا کام دیتا ہے۔ :)
آپ کی بات سر آنکھوں پر جناب لیکن یہ غزل صرف مشقِ سخن کے دائرے میں آتی ہے. اور اس کی کمیوں کا بہت حد تک ادراک مجھے بھی ہے.
 
Top