یہ خاکِ راہ نہ تھی جو کہ یار گزری ہے
ہوا کی موج پہ آتش چنار گزری ہے
بلا کا ساتھ لیے اک فشار گزری ہے
بہ فرقِ دشت و سرِ کوہسار گزری ہے
سمندِ وقت پہ گویا سوار گزری ہے
عمادِ چرخ کے کاندھوں پہ بار گزری ہے
فلک پہ گردشِ لیل و نہار گزری ہے
زمین پہ فصلِ خزاں کی بہار گزری ہے
جمالِ یار کی دزدیدہ اک کرن دل سے
نجانے کیسے مگر آشکار گزری ہے
وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے
تمہارے رخ کی حسیں چاندنی کے سائے تلے
جو رات گزری فقط وہ بکار گزری ہے
اگرچہ ٹھہری تھی ایک انبساطِ یکتا پر
جو سچ کہوں بہ غمِ انتظار گزری ہے
یہ ان کی بات کہ اوقات جانیے اپنے
چبھی ہے دل کو مگر غمگسار گزری ہے
غزل یہ حضرتِ ریحانؔ کی رواں ہے بہت
سروں سے بحروں کے یہ جویبار گزری ہے
برادرم ریحان ، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ غزل آپ کے عمومی معیار کو نہیں پہنچ سکی۔ اکثر اشعار میں مسائل ہیں ۔ ابلاغ نہیں ہورہا۔ میری ناقص رائے میں کئی اشعار میں ابہام کا عنصر غالب ہے۔
یہ خاکِ راہ نہ تھی جو کہ یار گزری ہے
ہوا کی موج پہ آتش چنار گزری ہے
مطلع اول سے ظاہر ہورہا ہے کہ موسمِ خزاں کی ہوا میں اڑتے ہوئے چنار کے سرخ پتوں کا ذکر ہے ۔لیکن اس شعر میں مسئلہ یہ ہے کہ آتش چنار کو بغیر اضافت استعمال کیا گیا ہے جو ٹھیک نہیں اور آتشِ چنار ظاہر ہے کہ وزن میں نہیں آتا ۔ آتش چنار اردو میں بغیر اضافت مستعمل نہیں ہے۔
اس کے بعد کے تین مطالع میں چونکہ فاعل موجود نہیں اس لیے ظاہر ہوتاہے کہ یہ تینوں اشعار مطلعِ اول سے متصل اور مربوط ہیں یعنی غزل کے پہلے چار اشعار قطع بند ہیں اور ان سب میں آتشِ چنار ہی کا ذکر ہورہا ہے ۔ اچھا ہوتا کہ ان چار اشعار کے بعد آپ کچھ فاصلہ چھوڑ کر قطعہ بند کی نشاندہی کردیتے ۔ لیکن ان تینوں مطالع میں بھی کچھ نہ کچھ گڑبڑیشن ہے ۔
لیے ہوئے اک عجب ہی فشار گزری ہے
بہ فرقِ دشت و سرِ کوہسار گزری ہے
سرِ کوہسار کی رعایت سے فرقِ دشت کہنا اچھی کوشش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فرقِ دشت کی ترکیب میں معقولیت نہیں ہے ۔ تشبیہ اور تجسیم کے لیے معقولیت تو بنیادی شرط ہوتی ہے ۔ دشت میں وسعت ، بسیط ، فراخی اور کشادگی وغیرہ کی صفات ہوتی ہیں اسی بنا پر دامنِ دشت ، محیطِ دشت وغیرہ معقول تراکیب ہیں لیکن دشت کا سر کیسے ہوسکتا ہے ؟
سمندِ وقت پہ گویا سوار گزری ہے
عمادِ چرخ کے کاندھوں پہ بار گزری ہے
اس مطلع میں مصرعِ ثانی کا کیا مطلب ہوا ؟ آتشِ چنار عمادِ چرخ کے کاندھوں پر کس طرح گراں گزر سکتی ہے؟ یہ ابلاغ نہیں ہورہا ۔
فلک پہ گردشِ لیل و نہار گزری ہے
زمین پہ فصلِ خزاں کی بہار گزری ہے
پہلی بات تو یہ کہ گردش گزرنا خلافِ محاورہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ گردشِ لیل و نہار تو زمین کے ساتھ مخصوص ہے ۔ فلک پر گردشِ لیل و نہار کا گزرنا غیر معروف اور مبہم ہے ۔
وہ میری بات کو خاطر میں لائیں گے ہی کہاں
کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے
یہ شعر ی خیال اچھا ہے لیکن دونوں مصرع لسانی اعتبار سے مطابق نہیں ۔ چونکہ دوسرے مصرع میں ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس لیے پہلا مصرع مستقبل کے بجائے زمانہ حال میں ہونا چاہیے: یعنی اس کی نثر یوں بنے گی: وہ میری بات کو کہاں ( یا کب) خاطر میں لاتے ہیں ، کچھ اور بات ہے جو ناگوار گزری ہے۔
تمہارے رخ کی حسیں چاندنی کے سائے تلے
جو رات گزری فقط وہ بکار گزری ہے
دوسرے مصرع میں فقط کا لفظ اٹک رہا ہے۔ جو رات گزری وہی تو بکار گزری ہے کہنے سے بھی مطلب تو ادا ہوجاتا ہے
اگرچہ ٹھہری تھی ایک انبساطِ یکتا پر
جو سچ کہوں بہ غمِ انتظار گزری ہے
یہ شعر اچھا ہے لیکن پہلے مصرع میں ٹھہری سے پہلے کسی لفظ کی کمی محسوس ہورہی ہے ۔ وزن سے قطعِ نظر کرتے ہوئےاگر یوں کہیں کہ : اُن سے ٹھہری تھی ۔۔۔۔ ، بات ٹھہری تھی ۔۔۔۔۔۔: تو واضح ہوجائے گا ۔ کسی بات کا ٹھہرنا بمعنی کسی بات کا طے ہونامعروف محاورہ ہے ۔
یہ اس کی بات کہ اوقات جانچیے اپنے
چبھی ہے دل کو مگر غمگسار گزری ہے
حیثیت کے معنوں میں اوقات کا لفظ مؤنث ہے ۔ بات گراں گزر سکتی ہے لیکن بات کا غمگسار گزرنا محاورہ نہیں ہے ۔
غزل یہ حضرتِ ریحانؔ کی رواں ہے بہت
سروں سے بحروں کے یہ جویبار گزری ہے
سمندر کا سر معقول تجسیم نہیں ہے۔ سروں سے بحروں کے ذوق پر گراں گزرتا ہے۔ اردو میں درست املا جوئبار ہے ۔
ریحان بھائی ، معذرت کہ میں یہ باتیں کہے بغیر رہ نہیں سکا ۔ دراصل آپ کی غزل میں عموماً اس قسم کے اسقام نہیں ہوتے چنانچہ مجھے یہ خلافِ معمول لگا کہ یہ اشعار آپ کے معیار تک نہیں پہنچ سکے ۔ شاید آپ اس غزل کو زیادہ وقت نہیں دے سکے ۔ نظرِ ثانی و ثالث وغیرہ کی ضرورت ہے۔