جو مجھے پاگل کہتے رہے

عائشہ عزیز

لائبریرین
"جہانگیر مجھے پتا تھا تو یہاں ایک دن ضرور آ جائے گا جب بھی مجھے یاد کرے گا۔۔۔تو یہ سوچ رہا ہے نہ کہ میں یہاں کیسے ۔۔تو بس یہی سمجھ لے میں اپنی مرضی سے ہوں یہاں ۔ باہر لوگ پاگل کہتے تھے تو بہت عجیب لگتا تھا کہ پاگل آخر ہوتے کیا چیز ہیں جو لوگ مجھے ان سے تشبیہ دیتے ہیں سو یہی جاننے ادھر کو آ نکلا ان لوگوں نے بھی پاگل سمجھ کر داخل کردیا اور یہاں آ کر میں ان سب لوگوں کو دعائیں دیتا ہوں جو مجھے پاگل کہتے رہے ۔ جہانگیر اگر باہر کوئی کسی کو گالی دے دے تو جھگڑا فساد ہوجاتا ہے یہاں جو پاگل غصّے میں ہوتا ہے وہ سب کو گالیاں دینے لگتا ہے اور باقی سب خاموشی سے سنتے ہیں جب وہ گالیاں دے دیکر تھک جاتا ہے تو سب ہنسنے لگتے ہیں اور پھر وہ خود بھی ہنسنے لگتا ہے اور سب شیر و شکر ہوجاتے ہیں کوئی اپنے دل میں کسی کے لئے میل نہیں رکھتا اپنی روٹی دوسروں کے آگے رکھ کر تالیاں بجاتے ہیں جب کہ باہر دنیا میں دوسرے کی روٹی چھین کر تالیاں بجائی جاتی ہیں یہاں ایک کو دورہ پڑتا ہے تو سب پاگل چیخ چیخ کر ڈاکٹر کی توجہ مبذول کروا دیتے ہیں جب کہ وہاں باہر دنیا میں کسی کا پورا خاندان ہی سر بازار ہی کیوں نہ اجڑ رہا ہو کوئی کچھ نہیں کہتا ایک آواز تک نہیں اٹھتی ہے ۔۔ میرے بچے آ ئے تھے مجھے لینے اور کہ رہے تھے آپ پاگل تو نہیں ہو پھر کیوں ہو یہاں تو میں نے یہی کہا ہاں میں پاگل نہیں پر میرے ارد گرد رہنے والے زیادہ " عقلمند " ہوگئے تھے اور ایسے " عقلمندوں " میں رہنا اب بس میں نہیں ۔۔۔ "


بشکریہ فیس بک
 

زبیر مرزا

محفلین
زمانہ وہ آگیا ہے کہ لُغت میں پاگل پن کے معنی بدلنے کی ضرورت ہے - ہم ذہنی اُلجھنوں میں مبتلا افراد کو پاگل نہیں کہہ سکتے لیکن وہ کہلاتے ہیں
بہت حساس اور عمدہ تحریر
 
Top