علی وقار
محفلین
جو منظر بجھ رہا ہے منتظر کِن ساعتوں کا ہے
اُفق پر دیر سے ٹھہرا ہُوا سایہ گھروں کا ہے
میں اپنے داغ داغِ سینۂ بے سوز سے خوش ہُوں
دلِ حسرت زدہ میں ایک منظر روزنوں کا ہے
نشیمن میں ہے اک منقار، دو وحشت زدہ آنکھیں
دھواں پھیلا ہُوا چاروں طرف جلتے پروں کا ہے
کسی گوشے میں سوتی ہے تمنّا اک تعلّق کی
شکستہ ذہن پر ملبہ ہزاروں خواہشوں کا ہے
ابھی ڈوبا نہیں پوری طرح دن کا تھکا سورج
فصیل درد سے اُبھرا ہوا چہرہ دُکھوں کا ہے
ابھی اک لاش اوجِ دار سے نیچے نہیں اتری
تصوّر دیر سے قائم قیامت قامتوں کا ہے
جو نیند آئے تو یہ پاگل ہَوا سونے نہیں دیتی
عجب اک شور دروازوں پہ پیہم دستکوں کا ہے
جھپکنے بھی نہیں پاتیں کھلی آنکھیں حبابوں کی
سمندر ایک آئینہ بدلتی صورتوں کا ہے
اُفق پر دیر سے ٹھہرا ہُوا سایہ گھروں کا ہے
میں اپنے داغ داغِ سینۂ بے سوز سے خوش ہُوں
دلِ حسرت زدہ میں ایک منظر روزنوں کا ہے
نشیمن میں ہے اک منقار، دو وحشت زدہ آنکھیں
دھواں پھیلا ہُوا چاروں طرف جلتے پروں کا ہے
کسی گوشے میں سوتی ہے تمنّا اک تعلّق کی
شکستہ ذہن پر ملبہ ہزاروں خواہشوں کا ہے
ابھی ڈوبا نہیں پوری طرح دن کا تھکا سورج
فصیل درد سے اُبھرا ہوا چہرہ دُکھوں کا ہے
ابھی اک لاش اوجِ دار سے نیچے نہیں اتری
تصوّر دیر سے قائم قیامت قامتوں کا ہے
جو نیند آئے تو یہ پاگل ہَوا سونے نہیں دیتی
عجب اک شور دروازوں پہ پیہم دستکوں کا ہے
جھپکنے بھی نہیں پاتیں کھلی آنکھیں حبابوں کی
سمندر ایک آئینہ بدلتی صورتوں کا ہے
شاعر: توصیف تبسم