جو چاہے سلوک کریں

ابو کاشان

محفلین
پہلے بتا دیتا ہوں کہ میں نہ تو شاعر ہوں نہ مصنّف، نہ قاری ہوں نہ مبتدی
بس یوں ہی ایک رات "رات کے راہی" (ریڈیو پروگرام) سن رہا تھا اور کچھ دل بھی اداس تھا۔ کچھ خبر نہیں یہ کیا ہے جو دماغ میں آتا گیا میں نوٹ بک میں لکھتا گیا۔ سوچا آپ سے شیئر کروں سو آپ کی نظر کرتا ہوں، جو دل چاہے سلوک کریں۔:)

احساسِ ندامت
تجھے کیا خوب جزا دی میں نے وفا کرنے کی
میرے دل میں اب بھی خلش ہے تجھ سے جفا کرنے کی
میرادل اب بھی تڑپتا ہے تجھے رُلانے پر
تجھے پیار و اعتبار کے لئے ترسانے پر
کیا یہ اس بات کی علامت ہے
کہ میرے دل میں اب بھی احساسِ ندامت ہے
وہ شب و روز کی کلفتیں
وہ پل پل کی اُلفتیں
کیا زمینِ دل اب بھی نم ہے زرخیزی کے لئے
کیا اب بھی عمر پڑی ہے نوخیزی کے لئے
یہ سچ ہے کہ ہمارے دل میں اب بھی احساس کے پھول کھلتے ہیں
ہم تو محبت و تپاک سے اب بھی ملتے ہیں
کاش یہ ممکن ہوتا
میں کبھی تو دل سے تیرا محسن ہوتا
نہ دیتا دکھ تجھے جُدائی کا
پا لیتا رتبہ مجازِ خدائی کا
نہ آتا کوئی لمحہ رسوائی کا
نہ دیتا خود کو موقعہ صفائی کا
نہ دل پہ لگانا کہ یہ میرے دل کی صدا ہے
فقط اک پرچھائیءِ زیستِ جانِ ادا ہے
 

الف عین

لائبریرین
بطور نثری نظم تو ٹھیک ہی ہے ابو کاشان۔ لیکن یہ ’مجازِ خدائی‘ اور پرچھایِ زیست کیا ترکیبیں ہیں؟
 

ابو کاشان

محفلین
بطور نثری نظم تو ٹھیک ہی ہے ابو کاشان۔ لیکن یہ ’مجازِ خدائی‘ اور پرچھایِ زیست کیا ترکیبیں ہیں؟

’مجازِ خدائی‘ تو مجازی خدا کہنا چاہا تھا۔ کچھ کا کچھ بن گیا۔

'پرچھایِ زیست' زندگی کا ایک لمحہ کہنا چاہا تھا۔خیر
بس کچھ قافیہ سازی کی کرشمہ سازی ہے۔
 
Top