جو کہا ہم نے وہ سُنا جائے ٭ اسد اقبال

کان اس بات پر دھرا جائے
جو کہا ہم نے وہ سُنا جائے

جبکہ رونے سے کچھ نہیں ہو گا
کیوں نہ ہنس کر ستم سہا جائے

یہ ضروری نہیں ہے میری جان
رات کو رات ہی کہا جائے

قتل کر کے مُجھے کہا اُس نے
اب کوئی اور سر چُنا جائے

شہر کی زندگی سے بہتر ہے
اپنے گاؤں میں ہی رہا جائے

اسد اقبال
 
Top