جو کہے سن کے مدعا مطلب

محمد محبوب

محفلین
جو کہے سن کے مدعا مطلب
میرے مطلب سے اس کو کیا مطلب

مل گیا دل، نکل گیا مطلب
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب

جو نہ نکلے کبھی نہ پورا ہو
وہ مرا مدعا مرا مطلب

حُسن کا رعب ضبط کی گرمی
دل میں گُھٹ گُھٹ کے رہ گیا مطلب

نہ سہی عشق دُکھ سہی ناصح
تجھ کو کیا کام تجھ کو کیا مطلب

مژدہ اے دل کہ نیم جاں ہوں میں
اب تو پورا ہوا ترا مطلب

اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
سچ ہے تم کو کسی سے کیا مطلب

آتشِ شوق اور بھڑکا دی
منہ چھپانے کا کُھل گیا مطلب

کچھ ہے مطلب تو دل سے مطلب ہے
مطلبِ دل سے ان کو کیا مطلب

ان کی باتیں ہیں کتنی پہلو دار
سب سمجھ لیں جدا جدا مطلب

جب مری آرزو سے کام نہیں
پھر مرے دل سے تم کو کیا مطلب

اس کو گھر سے نکال کر خوش ہو
کیا حسن تھا رقیب کا مطلب

مولانا حسن رضا خان
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
محبوب صاحب !
بہت ہی اچھی غزل شیئر کی آپ نے ، بہت لطف دیا آپ کے اس انتخاب نے
تشکّر شریک محفل کرنے پر

ایک شعر میں ٹائپو ہے، اسے صحیح کردیں،
ٹھیک یوں ہے کہ:

حُسن کا رعب، ضبط کی گرمی
دل میں گُھٹ گُھٹ کے رہ گیا مطلب


تشکّر ایک بار پھر سے بہت ہی اچھی غزل شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں :)
 
Top