جو کہے سُن کے مدعا مطلب۔۔۔۔!

ملک حبیب

محفلین
جو کہے سن کے مدعا مطلب
میرے مطلب سے اُس کو کیا مطلب

مل گیا دل نکل گیا مطلب
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب

جو نہ نکلے کبھی نہ پورا ہو
وہ مرا مدعا مرا مطلب

حُسن کا رُعب ضبط کی گرمی
دل میں گُھٹ گُھٹ کے رہ گیا مطلب

نہ سہی عشق دُکھ سہی ناصح
تجھ کو کیا کام تجھ کو کیا مطلب

مژدہ اے دل کہ نیم جاں ہوں میں
اب تو پورا ہوا ترا مطلب

اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
سچ ہے تم کو کسی سے کیا مطلب

آتشِ شوق اور بھڑکا دی
منہ چھپانے کا کھل گیا مطلب

کچھ ہے مطلب تو دل سے مطلب ہے
مطلب دل سے ان کو کیا مطلب

اُن کی باتیں ہیں کتنی پہلو دار
سب سمجھ لیں جدا جدا مطلب

جب مری آرزو سے کام نہیں
پھر مرے دل سے تم کو کیا مطلب

حال کہنے سے مجھ کو یوں روکا
میں تمہارا سمجھ لیا مطلب

خط میں لکھوں جو حال فرقت کا
تو عبارت سے ہو جدا مطلب

نیل ہو گا عدو کے بوسوں کا
منہ چھپانے سے اور کیا مطلب

اُس کو گھر سے نکال کر خوش ہو
کیا حسنؔ تھا رقیب کا مطلب

کلام مولانا حسن رضا خان بریلوی
 
Top