سودا جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا - سودا

فرخ منظور

لائبریرین
جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم رکھو، ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم
یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو، ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ، درگرز گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تندخو، ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے، احوالِ دل پہ اے آنکھو!
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا

دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا

(مرزا رفیع سودا)
 

فرخ منظور

لائبریرین
سودا کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ہے یہ غزل، شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیئے!

بہت شکریہ وارث صاحب!

آپ کی طرح خوبصورت انتخاب۔ شکریہ

بہت شکریہ فاتح صاحب - آپ کا محفل پر دیدار تو نصیب ہوا :) اور جہاں تک خوبصورتی کا تعلق ہے تو "کبھی ہم بھی خوبصورت تھے" :)
 

نوید صادق

محفلین
فرخ بھائی،

سودا کی ایک غزل ہے

مت یہ آتشکدہ اس قطرہء سیماب میں ڈال (مطلع کا دوسرا مصرعہ)

کلیات تو آج کل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ذرا یہ غزل بھی احباب سے شیئر کر لیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی،

سودا کی ایک غزل ہے

مت یہ آتشکدہ اس قطرہء سیماب میں ڈال (مطلع کا دوسرا مصرعہ)

کلیات تو آج کل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ذرا یہ غزل بھی احباب سے شیئر کر لیں۔

جی کیوں نہیں نوید بھائی - مجھے خوشی ہوئی کہ کسی نے تو فرمائش داغی :) جلد پوسٹ کرتا ہوں :)
 
Top