کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعِلن
بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
محترم جناب الف عین صاحب
اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
--------------------------------------
جو گھر میں پھیلے تو اس کا حصار رکتا نہیں
یہ نفرتوں میں چھپا انتشار رکتا نہیں
بے اعتباری کی کھائی سے بچ کے رہنا تم
نشیب گہرا ہے اس کا، اتار رکتا نہیں
گزر رہا ہے زیاں کا جو قافلہ دل سے
اُسی کی وجہہ سے غم کا غبار رکتا نہیں
میں سایا دار شجر ہوں، مجھے کہاں جانا ؟
تُو اتّفاق ہے اور بار بار رکتا نہیں
دعا جو ایک ملی بھی، قرارِ دل کی ملی
کہوں جو دل کی تو، دل میں قرار رکتا نہیں
یہ مصلحت کا زہر روز پینا پڑتا ہے
بڑھا ہی جاتا ہے دل کا فشار رکتا نہیں
حسین رخ کا، جوانی کا یا ہو دولت کا
نئے زمانے میں یہ اشتہار رکتا نہیں
ہمارا گھر ہو یا پھر سنگِ آستاں تیرا
وہ منزلیں ہیں جہاں، غم گسار رکتا نہیں
وفا کی راہ میں گھائل ہزار ہو کاشف
چلے ہی چلتا ہے وہ زار زار، رکتا نہیں
---------------------
شکریہ
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعِلن
بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
محترم جناب الف عین صاحب
اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
--------------------------------------
جو گھر میں پھیلے تو اس کا حصار رکتا نہیں
یہ نفرتوں میں چھپا انتشار رکتا نہیں
بے اعتباری کی کھائی سے بچ کے رہنا تم
نشیب گہرا ہے اس کا، اتار رکتا نہیں
گزر رہا ہے زیاں کا جو قافلہ دل سے
اُسی کی وجہہ سے غم کا غبار رکتا نہیں
میں سایا دار شجر ہوں، مجھے کہاں جانا ؟
تُو اتّفاق ہے اور بار بار رکتا نہیں
دعا جو ایک ملی بھی، قرارِ دل کی ملی
کہوں جو دل کی تو، دل میں قرار رکتا نہیں
یہ مصلحت کا زہر روز پینا پڑتا ہے
بڑھا ہی جاتا ہے دل کا فشار رکتا نہیں
حسین رخ کا، جوانی کا یا ہو دولت کا
نئے زمانے میں یہ اشتہار رکتا نہیں
ہمارا گھر ہو یا پھر سنگِ آستاں تیرا
وہ منزلیں ہیں جہاں، غم گسار رکتا نہیں
وفا کی راہ میں گھائل ہزار ہو کاشف
چلے ہی چلتا ہے وہ زار زار، رکتا نہیں
---------------------
شکریہ