محمد شکیل خورشید
محفلین
جو یاد میں باقی ہے نگاہوں میں سمایا ہے
اک دستِ حنائی ہے اور شام کا سایا ہے
کیا تجھ کو بتائیں ہم اے ہمدمِ دیرینہ
یادوں سے تری ہم نے کیا لطف اٹھایا ہے
جینے کے بہانے تو پہلے بھی ہزاروں تھے
جینے کا مزا تیری چاہت ہی سے آیا ہے
وہ پیکرِ رعنائی دیکھا تو کہا دل نے
فرصت سے نظارہ یہ قدرت نے بنایا ہے
یہ کوئی نہ جانے کیوں مرتا ہے شکیل اس پہ
وہ کون سا ناتا ہے جو اس نے نبھایا ہے
فروری 92 کی ویلنٹائن کی شام نکاح ہوا ( رخصتی اسی سال نومبر میں ہوئی) اس نکاح کی شام کے حوالے سے یہ غزل کہی تھی انہی دنوں میں
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
اک دستِ حنائی ہے اور شام کا سایا ہے
کیا تجھ کو بتائیں ہم اے ہمدمِ دیرینہ
یادوں سے تری ہم نے کیا لطف اٹھایا ہے
جینے کے بہانے تو پہلے بھی ہزاروں تھے
جینے کا مزا تیری چاہت ہی سے آیا ہے
وہ پیکرِ رعنائی دیکھا تو کہا دل نے
فرصت سے نظارہ یہ قدرت نے بنایا ہے
یہ کوئی نہ جانے کیوں مرتا ہے شکیل اس پہ
وہ کون سا ناتا ہے جو اس نے نبھایا ہے
فروری 92 کی ویلنٹائن کی شام نکاح ہوا ( رخصتی اسی سال نومبر میں ہوئی) اس نکاح کی شام کے حوالے سے یہ غزل کہی تھی انہی دنوں میں
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ و احباب کی نذر