کاشفی
محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی
جَلا کے میری نظر کا پردہ، ہٹا دی رُخ سے نقاب تُونے
چراغ اُٹھا کر، مرے شبستاں میں رکھ دیا آفتاب تُونے
فلک، نظر سے تڑپ رہا ہے، زمین، عشوؤں سے ہل رہی ہے
کہاں سے پایا ہے او ستمگر! یہ مست و کافر شباب تُونے
نسیم، اوراق اُلٹ رہی ہے، نُجوم، مشعل دکھا رہے ہیں
اُفق کی سُرخی میں پیش کی ہے، سحر کی زرَّیں کتاب تُونے
میں اپنے سینے میں تجھ کو رَکھ لوں، اِدھر تو آ اے سحابِ رنگیں
زمیں پہ ٹپکائیں رَس کی بُوندیں، فلک پہ چھِڑکی شراب تُونے
زمیں کی جانب نظر جھکائے کل ایک شاعر یہ کہہ رہا تھا
ہر ایک ذرّے کو مُسکرا کر بنا دیا آفتاب تُونے
جو باخبر تھے، وہ مُسکرائے، جو بے خبر تھے، وہ کچھ نہ سمجھے
اُٹھا کے بیگانہ وار آنکھیں، کیا جو مجھ سے خطاب تُونے
ترے نثار اے نگاہِ ساقی! ترے تصّور میں کیوں نہ جھُوموں
کہ اپنے پرتَو کو میرے دل میں بنا دیا ہے شراب تُونے
پلٹ گئیں اشک بن کے نظریں، گِرایا جیسے ہی تُونے پردہ
برس پڑیں سیکڑوں نگاہیں، ذرا جو اُلٹی نقاب تُونے
نہ ہوگا تجھ سا بھی لااُبالی، خدا کی رحمت ہو جوش تجھ پر
سحر کو کیا کیا ضرورتیں ہیں، کبھی نہ دیکھا یہ خواب تُونے