غزل قاضی
محفلین
جُدائی
نگار ِ شام غم مَیں تجھ سے رخصت لینے آیا ہُوں
گلے مِل لے کہ یوں مِلنے کی نوبت پھر نہ آئے گی
سر ِ را ہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا
یہ لمحے پِھر نہ لَوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی
یہ مَوجوں کا تلاطُم یہ بھرے دریا کی طُغیانی
ذرا سی دیر میں یہ دھڑکنیں بھی ڈوب جائیں گی
میری آنکھوں تک آ پہنچا ہَے اب بہتا ہُوا پانی
تِری آواز مدھم ۔۔۔اور مدھم ہوتی جاتی ہَے
مصطفیٰ زیدی
(شہر ِ آذر)
نگار ِ شام غم مَیں تجھ سے رخصت لینے آیا ہُوں
گلے مِل لے کہ یوں مِلنے کی نوبت پھر نہ آئے گی
سر ِ را ہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا
یہ لمحے پِھر نہ لَوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی
جَرس کی نغمگی آواز ِ ماتم ہوتی جاتی ہَے
غضب کی تِیرگی ہَے راستہ دیکھا نہیں جاتایہ مَوجوں کا تلاطُم یہ بھرے دریا کی طُغیانی
ذرا سی دیر میں یہ دھڑکنیں بھی ڈوب جائیں گی
میری آنکھوں تک آ پہنچا ہَے اب بہتا ہُوا پانی
تِری آواز مدھم ۔۔۔اور مدھم ہوتی جاتی ہَے
مصطفیٰ زیدی
(شہر ِ آذر)