فرحان محمد خان
محفلین
جُھومی ہوئی گھٹا ہے پیمانہ رقص میں ہے
دُھومیں مچی ہوئی ہیں ، میخانہ رقص میں ہے
موجِ صبا گلوں کے دامن پہ ناچتی ہے
مستی میں خود گلوں کا کاشانہ رقص میں ہے
یوں بوئے عود و عنبر لہرا کے اُٹھ رہی ہے
جس طرح کوئی روحِ زندانہ رقص میں ہے
یوں شمعِ میکدہ کی لو آج ناچتی ہے
شعلوں میں جیسے کوئی پروانہ رقص میں ہے
ہر چیز پر ہے گویا زندانہ وجد طاری
ہر شے بحکمِ مستی ، مستانہ رقص میں ہے
ساغر بدست کوئی میخوار جھومتا ہے
مینا بدوش کوئی مستانہ رقص میں ہے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے میخوار ناچتے ہیں
مستی کا اک مسلسل افسانہ رقص میں ہے
ہاں اور میرے ساقی ! ہاں اور میرے ساقی
نعروں سے آج سقف میخانہ رقص میں ہے
وہ کیف ہے کہ خود ہے ساقی پہ کیف طاری
وہ رقص ہے کہ خود بھی جانانہ رقص میں ہے
اس لطف کا زباں سے کیا شکریہ ادا ہو
اختر پئے ادائے شکرانہ رقص میں ہے
دُھومیں مچی ہوئی ہیں ، میخانہ رقص میں ہے
موجِ صبا گلوں کے دامن پہ ناچتی ہے
مستی میں خود گلوں کا کاشانہ رقص میں ہے
یوں بوئے عود و عنبر لہرا کے اُٹھ رہی ہے
جس طرح کوئی روحِ زندانہ رقص میں ہے
یوں شمعِ میکدہ کی لو آج ناچتی ہے
شعلوں میں جیسے کوئی پروانہ رقص میں ہے
ہر چیز پر ہے گویا زندانہ وجد طاری
ہر شے بحکمِ مستی ، مستانہ رقص میں ہے
ساغر بدست کوئی میخوار جھومتا ہے
مینا بدوش کوئی مستانہ رقص میں ہے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے میخوار ناچتے ہیں
مستی کا اک مسلسل افسانہ رقص میں ہے
ہاں اور میرے ساقی ! ہاں اور میرے ساقی
نعروں سے آج سقف میخانہ رقص میں ہے
وہ کیف ہے کہ خود ہے ساقی پہ کیف طاری
وہ رقص ہے کہ خود بھی جانانہ رقص میں ہے
اس لطف کا زباں سے کیا شکریہ ادا ہو
اختر پئے ادائے شکرانہ رقص میں ہے
جاں نثار اختر