سید عمران
محفلین
اسلام کے خلاف ایک فتنہ جو صدیوں سے مسلمانوں کا پیچھا کررہا ہے ’’اِستشراق‘‘ ہے۔ استشراق کہتے ہیں مشرقی علوم و آداب کو۔ اسی سے مستشرقین نکلا ہے یعنی وہ مغربی آدمی جو مشرقی علوم و آداب کا ماہر ہو۔ لیکن مشرقی علوم کے نام پر مستشرقین اسلام کی جڑیں کترنے کی کوشش کرتے ہیں۔مستشرقین عموماً یہودی اور عیسائی ہوتے ہیں، یہ امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرنے کی غرض سے اسلامی علوم و فنون اور تاریخ کے مطالعہ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں۔
یہودی اور عیسائی خود کو اللہ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے ہی خاندان یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں آنے والے نبی کے منتظر تھے اور اس کے ساتھ مل کر ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔لیکن جب اللہ تعالیٰ نے نبوت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تو یہودیوں نے حسد اور جلن کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے سے انکار کر دیا۔ جب اسلام تیزی کے ساتھ دنیا کے بڑ ے حصے میں پھیلنے لگا تو یہودیوں اور عیسائیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا رہا تو ایک دن ان کا دین بالکل ختم ہو جائے گا۔
تیرہویں صدی عیسوی میں جب عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں شکست فاش ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ تلوار کی بجائے قلم سے اسلام کی بیخ کنی کی جائے اور علم و تحقیق کے نام پر اسلام کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ نظریہ ”تحریکِ استشراق‘‘ کا بانی بنا۔ یوں آغاز ہوا دنیا کے اس عظیم ترین فتنے کا!!!
مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور عیسائی مذہب کی اشاعت کرنا ہے۔اس کے علاوہ مغربی ممالک کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنے آلۂٔ کاروں کو مسلم ممالک پر حکمران بنائیں تاکہ مسلم ممالک پر عیسائیوں اور یہودیوں کی حکمرانی قائم ہوسکے۔
اس کے لیے مُستشرقین نے مشرقی علوم میں تحقیق کے نام پر اسلام مخالف کام کیے، مسلمانوں میں نئے نئے عقیدے گھڑے، قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کو طنز و مذاق کا نشانہ بنایا، ان پر کارٹون اور فلمیں بنائیں، غلط عقائد پر مبنی مختلف فرقے بنائے، علماء حق کے القابات مثلاً مولوی اور ملّا کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی عظمت ختم ہوجائے اور وہ ان سے دین نہ سیکھیں، ایک ایک کرکے اسلامی احکام کو مذاق کا نشانہ بنایا اور اسکالر کے نام پر اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو مسلمانوں کا مذہبی رہنما بناکر پیش کیا۔
مستشرقین بنانے کے لیے قابل اور ذہین عیسائی اور یہودی افراد اسلام کے مطالعہ کے لیے چنے جاتے ہیں، انہیں بے تحاشہ مراعات دے کر ان کی زندگیاں اسی کام کے لیے خرید لی جاتی ہیں۔ ان کے لیے ایسے ادارے بنائے گئے ہیں جہاں وہ قرآن، حدیث، فقہ، علم الکلام، تاریخ اور دیگر اسلامی علوم پر تحقیق کرتے ہیں۔اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ایسی ایسی باتیں پیش کی جائیں جن سے ظاہر ہو کہ اسلام کے احکامات کی کوئی وقعت نہیں ہے اور اسلام آج کے دور کا ساتھ نہیں دے سکتا جبکہ مغرب کی سائنسی ترقی کی عظمت پیش کرکے ڈھکے چھپے الفاظ میں عیسائی مذہب کو پُرکشش کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
مستشرقین مسلمانوں کے سامنے خود کو روشن خیال مفکر ظاہر کرتے ہیں اور علماء حق اور سلف صالحین کے طریقے کو فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ اسلامی تحقیق و تعلیم کے نام پر یورپ و امریکہ کی یونیورسٹیوں کے دروازے مسلمانوں پر کھول دئیے گئے،ذہین و تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کیا، انہیں پُرکشش مالی مراعات دیں اور اپنے عقائد کے سانچے میں ڈھال کر انہیں اپنا آلۂ کار بنا لیا۔
مستشرقین تواتر سے دنیا بھر میں علم و تحقیق کے عنوان سے سیمینار منعقد کرتے ہیں جن میں اسلامی عقائد و تہذیب پر تنقید ہوتی ہے اور علماء حق کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کا پراپیگنڈا ہے کہ محض قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ کر ہر شخص مجتہد بن سکتا ہے اور فتویٰ دے سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے نہ صرف و نحو، علم تفسیر، علم حدیث، آثار صحابہ، علم فقہ اور ناسخ و منسوخ وغیرہ جیسے علوم کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی عالم کی۔ چوں کہ احادیث مبارکہ کے ہوتے ہوئے مستشرقین قرآن کریم کی من مانی شرح نہیں رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کی تحریک کا آغاز کردیا۔
قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے احادیث مبارکہ ضروری ہیں چناں چہ مستشرقین نے ایک وار احادیث مبارکہ پر بھی کیا اور انہیں غیر ضروری ثابت کیا۔ اس کے لیے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ہلکا ثابت کرنا پڑ رہا تھا، وہ یہ بھی کرگزرے۔
مستشرق ڈاکٹر فلپ ہٹی اپنی کتابIslam and the west کے بابIslam and the western literature میں لکھتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے مستشرقین نے اپنی طرف سے اسلام مخالف بیہودہ کہانیاں بنائیں۔ دانتے الیگیری نے اسلام مخالف مزاحیہ نظم خدائی کامیڈی لکھی جس میں معاذ اللہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نویں جہنم میں دکھایا۔
قرونِ وسطی کے اس دور میں مستشرقین نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں (نعوذ باللہ)یہ بات بھی پھیلائی کہ ایک تربیت یافتہ کبوتر آپ کے کاندھے پر بیٹھا رہتا تھا، جب وہ آپ کے کان میں رکھا دانہ چگنے کے لیے چونچ مارتا تو آپ فرماتے کہ روح القدس اس کے ذریعے مجھ پر وحی نازل کررہے ہیں۔ اس جھوٹے واقعے کو شیکسپیر جیسے ادیب نے بھی اپنے ڈرامے کے ایک کردار کے ذریعے بیان کروایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی توہین کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں مستشرقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
عیسائی مبلغ منٹگمری واٹ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کا ماننے سے انکار کردیا اور اسے (Creative Imagination) ’’تخلیقی تخیل‘‘ کا نام دے کر وحی کے زُمرے سے نکالنے کی ناپاک جسارت کی۔
مستشرقین کے پیدا کردہ ’’منکرین حدیث‘‘ نامی پرویزی فتنے کا بھی یہی عقیدہ ہے۔وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نبی تو مانتے ہیں مگر احادیث مبارکہ کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی رو سے فیصلے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ذاتی بصیرت کے مطابق کرتے تھے۔ جس میں اس بات کا بھی امکان ہو سکتا ہے کہ حق دار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے(معاذ اللہ)۔منٹگمری واٹ اور پرویزی فتنے کے عقائد میں سرِ مو فرق نہیں۔
اگلے مرحلے میں مستشرقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا انکار کیا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ سموئیل مارگولیتھ چرچ آف انگلینڈ کا سپاہی تھا۔ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سفر معراج کا انکاری تھا۔
یہی نظریہ مستشرقین کی بوئی ہوئی جماعت قادیانیوں کے سرغنہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا، اور اتم و اکمل تھا۔ کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ کشف میں جو جسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اور آپ کو اسی جسم کے ساتھ جو بڑی طاقتوں والا ہوتا ہے، معراج ہوا۔‘‘(ملفوظات جلد دوم)
مستشرقین یہ ثابت کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) احادیث دراصل گھڑی گئی ہیں اور ان کی حقیقت کچھ نہیں۔مستشرقین نے علم حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کہ دورِ اوّل کے مسلمان حدیث کو حجّت نہیں سمجھتے تھے، یہ خیال مسلمانوں میں بعد میں رائج ہوا۔
محدثین کے ہاں سند کی جو اہمیت ہے،وہ دلائل کی محتاج نہیں، حتی کہ انہو ں نے سند کو دین قرار دیا ہے ۔مستشرقین چوں کہ سند کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں،اس لیے انہوں نے سند کو من گھڑت قرار دے کر احادیث کو نا قا بل اعتبارقرار دینے کی کوشش کی اور دعوی کیا کہ اس دور میں لوگ مختلف اقوال اور افعال کورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔
مستشرقین کا کہنا ہے کہ بہت سی احادیث و روایات یہود و نصاریٰ کی کتب سے متاثر ہو کر گھڑی گئی ہیں۔ جن احادیث میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی معجزانہ شان کا ذکر ہے ان پر ناپاک تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ (Will Durant)کہتا ہے کہ’’ بہت سی احادیث نے مذہب اسلام کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے،لیکن سینکڑوں حدیثیں ان کے معجزانہ کار ناموں کا پتہ دیتی ہیں۔ اس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پزیر ہوئیں۔
مستشرقین نے اس گمراہ کن نظریے کو پروان چڑھایا کہ، چوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے منع کر دیا تھا ،اس لیے دور اوّل کے علماء نے علم حدیث کی حفاظت میں سستی اور لاپروائی سے کام لیا، جس کے نتیجہ میں یا تو حدیثیں ضائع ہو گئیں یا پھر ان میں اس طرح کا اشتباہ پیدا ہو گیا کہ یقین کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہ رہا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ مستشرق الفریڈ گیلوم (Alfred Guillaume)لکھتا ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دور کے بعد مدوّن ہوئے۔مستشرق میکڈونلڈ لکھتا ہے کہ بعض محدثین کا صرف زبانی حفظ پر اعتماد کرنا اور ان لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابت حدیث کے قائل تھے ،یہ طرز عمل بالآخر سنت کے ضائع ہونے کا سبب بنا۔
مستشرقین نے ان عظیم شخصیات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو حدیث کی حفاظت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس کے لیے انہوں نے مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور نام ور تابعی امام ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کو خاص نشانہ بنایا۔گولڈ زیہر یہودی مستشرق تھا، اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر وضع حدیث کا الزام عائد کیا اورمحدث امام ابن شہاب زہری پر جھوٹی تہمت لگائی کہ وہ بنو امیہ کے مذہبی اور سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی طرف سے جھوٹی احادیث بناتے تھے۔
جوزف شاخت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ پر وضع حدیث کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ان کے زمانے میں مسلمانوں میں جو بھی عمل جاری تھا،اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردینے کا رجحان تھا، اس رجحان میں عراقی فقہاءامام اوزاعی کے ساتھ تھے۔‘‘
الحمد للہ! مستشرقین کی جانب سے ان تمام لغو اعتراضات کا جواب علماء کرام دے کر انہیں جھوٹا اور گمراہ کن ثابت کرچکے ہیں۔ تاہم وہ سیدھے سادے مسلمان جو علم کی باریکیوں سے واقف نہیں اور نہ ہی علماء حق کی صحبتوں میں رہ کر دین سے واقفیت رکھتے ہیں مستشرقین کی چال بازیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماضی میں مستشرقین نے اسلام پر جو تنقید کی اس وقت کے علماء کرام نے ان کے مدلل جوابات دئیے تھے اور ان کی غلطیوں سے عوام کو روشناس کرایا۔ اس اہم فریضہ کو انجام دینے میں بالخصوص سیرت النبی کے حوالے سےمولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کانام نمایاں ہے۔
مستشرقین کے آلۂ کار میڈیا کے اینکرز، اخبارات کے کالم نویس، سوشل میڈیا پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے،ٹی وی پر مذہبی پروگرام کرنے والے جن کا حلیہ اور کردار شریعت و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا، کالج و یونیورسٹی کے پروفیسرز، وہ مذہبی رہنما جنہوں نے امریکہ و یورپ سے اسلامی تعلیم حاصل کی اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاتے ہیں جیسوں کے روپ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ دین اسلام، اسلامی احکامات اور علماء کرام کا مذاق اڑاتے ہیں یا کم از کم انہیں ماننے سے انکار کرتے ہیں، انہیں آج کے دور کے مطابق نہیں مانتے، خود قرآن پڑھ کر دین سمجھنے کو کہتے ہیں، احادیث کو نہیں مانتے اور صحابہ کرام کے اعمال کو قابل عمل قرار نہیں دیتے۔
مستشرقین کے فتنے سے نمٹنے کے لیے علماء کرام کی جانب سے ایک حل یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ہر آبادی علماء کی سعی اور خدمت سے آباد رہے۔ جاہلوں کو پڑھانا اور نادانوں کو سمجھا کر ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرنا ایک عالم دین کا فریضہ ہے۔‘‘
علماء کرام کے ساتھ عوام کا بھی فریضہ ہے کہ علماء کرام سے دین کے احکامات سیکھتے رہیں تاکہ کوئی ان کی راہ نہ مار سکے۔دین اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے، کوئی لاکھ کوشش کرلے دینِ حق کا چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ لہٰذا اپنے ساتھ اپنے متعلقین کو بھی اس فتنے کی ہولناکیوں سے آگاہ کریں۔ دین میں ہر نئے خیال و نظریہ کو ہوا دینے والے سے چوکنا رہیں۔اپنے آس پاس نظر رکھیں، جو شخص اسلام کی، اسلامی احکامات کی، دینی مسائل کی، اسلامی ہستیوں کی اور علماء کرام کی توہین کرے اس سے ہوشیار ہوجائیں اور مشرق و مغرب کی دوری اختیار کرلیں۔
آپ کو اپنے دین کی فکر خود کرنی ہے، اگر آپ نے اپنا دین نہ بچایا تو کوئی دوسرا اسے بچانے نہیں آئے گا۔
استشراق کی تاریخ
یہودی اور عیسائی خود کو اللہ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے ہی خاندان یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں آنے والے نبی کے منتظر تھے اور اس کے ساتھ مل کر ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔لیکن جب اللہ تعالیٰ نے نبوت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تو یہودیوں نے حسد اور جلن کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے سے انکار کر دیا۔ جب اسلام تیزی کے ساتھ دنیا کے بڑ ے حصے میں پھیلنے لگا تو یہودیوں اور عیسائیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا رہا تو ایک دن ان کا دین بالکل ختم ہو جائے گا۔
تیرہویں صدی عیسوی میں جب عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں شکست فاش ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ تلوار کی بجائے قلم سے اسلام کی بیخ کنی کی جائے اور علم و تحقیق کے نام پر اسلام کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ نظریہ ”تحریکِ استشراق‘‘ کا بانی بنا۔ یوں آغاز ہوا دنیا کے اس عظیم ترین فتنے کا!!!
مقاصد
مستشرقین کا بنیادی مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور عیسائی مذہب کی اشاعت کرنا ہے۔اس کے علاوہ مغربی ممالک کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنے آلۂٔ کاروں کو مسلم ممالک پر حکمران بنائیں تاکہ مسلم ممالک پر عیسائیوں اور یہودیوں کی حکمرانی قائم ہوسکے۔
اس کے لیے مُستشرقین نے مشرقی علوم میں تحقیق کے نام پر اسلام مخالف کام کیے، مسلمانوں میں نئے نئے عقیدے گھڑے، قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کو طنز و مذاق کا نشانہ بنایا، ان پر کارٹون اور فلمیں بنائیں، غلط عقائد پر مبنی مختلف فرقے بنائے، علماء حق کے القابات مثلاً مولوی اور ملّا کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی عظمت ختم ہوجائے اور وہ ان سے دین نہ سیکھیں، ایک ایک کرکے اسلامی احکام کو مذاق کا نشانہ بنایا اور اسکالر کے نام پر اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو مسلمانوں کا مذہبی رہنما بناکر پیش کیا۔
طریقۂ کار
مستشرقین بنانے کے لیے قابل اور ذہین عیسائی اور یہودی افراد اسلام کے مطالعہ کے لیے چنے جاتے ہیں، انہیں بے تحاشہ مراعات دے کر ان کی زندگیاں اسی کام کے لیے خرید لی جاتی ہیں۔ ان کے لیے ایسے ادارے بنائے گئے ہیں جہاں وہ قرآن، حدیث، فقہ، علم الکلام، تاریخ اور دیگر اسلامی علوم پر تحقیق کرتے ہیں۔اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ایسی ایسی باتیں پیش کی جائیں جن سے ظاہر ہو کہ اسلام کے احکامات کی کوئی وقعت نہیں ہے اور اسلام آج کے دور کا ساتھ نہیں دے سکتا جبکہ مغرب کی سائنسی ترقی کی عظمت پیش کرکے ڈھکے چھپے الفاظ میں عیسائی مذہب کو پُرکشش کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
مستشرقین مسلمانوں کے سامنے خود کو روشن خیال مفکر ظاہر کرتے ہیں اور علماء حق اور سلف صالحین کے طریقے کو فرسودہ قرار دیتے ہیں۔ اسلامی تحقیق و تعلیم کے نام پر یورپ و امریکہ کی یونیورسٹیوں کے دروازے مسلمانوں پر کھول دئیے گئے،ذہین و تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کیا، انہیں پُرکشش مالی مراعات دیں اور اپنے عقائد کے سانچے میں ڈھال کر انہیں اپنا آلۂ کار بنا لیا۔
قرآن کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش
مستشرقین تواتر سے دنیا بھر میں علم و تحقیق کے عنوان سے سیمینار منعقد کرتے ہیں جن میں اسلامی عقائد و تہذیب پر تنقید ہوتی ہے اور علماء حق کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کا پراپیگنڈا ہے کہ محض قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ کر ہر شخص مجتہد بن سکتا ہے اور فتویٰ دے سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے نہ صرف و نحو، علم تفسیر، علم حدیث، آثار صحابہ، علم فقہ اور ناسخ و منسوخ وغیرہ جیسے علوم کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی عالم کی۔ چوں کہ احادیث مبارکہ کے ہوتے ہوئے مستشرقین قرآن کریم کی من مانی شرح نہیں رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کی تحریک کا آغاز کردیا۔
قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے احادیث مبارکہ ضروری ہیں چناں چہ مستشرقین نے ایک وار احادیث مبارکہ پر بھی کیا اور انہیں غیر ضروری ثابت کیا۔ اس کے لیے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ہلکا ثابت کرنا پڑ رہا تھا، وہ یہ بھی کرگزرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی
مستشرق ڈاکٹر فلپ ہٹی اپنی کتابIslam and the west کے بابIslam and the western literature میں لکھتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے مستشرقین نے اپنی طرف سے اسلام مخالف بیہودہ کہانیاں بنائیں۔ دانتے الیگیری نے اسلام مخالف مزاحیہ نظم خدائی کامیڈی لکھی جس میں معاذ اللہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نویں جہنم میں دکھایا۔
قرونِ وسطی کے اس دور میں مستشرقین نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں (نعوذ باللہ)یہ بات بھی پھیلائی کہ ایک تربیت یافتہ کبوتر آپ کے کاندھے پر بیٹھا رہتا تھا، جب وہ آپ کے کان میں رکھا دانہ چگنے کے لیے چونچ مارتا تو آپ فرماتے کہ روح القدس اس کے ذریعے مجھ پر وحی نازل کررہے ہیں۔ اس جھوٹے واقعے کو شیکسپیر جیسے ادیب نے بھی اپنے ڈرامے کے ایک کردار کے ذریعے بیان کروایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی توہین کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں مستشرقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
عیسائی مبلغ منٹگمری واٹ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کا ماننے سے انکار کردیا اور اسے (Creative Imagination) ’’تخلیقی تخیل‘‘ کا نام دے کر وحی کے زُمرے سے نکالنے کی ناپاک جسارت کی۔
مستشرقین کے پیدا کردہ ’’منکرین حدیث‘‘ نامی پرویزی فتنے کا بھی یہی عقیدہ ہے۔وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نبی تو مانتے ہیں مگر احادیث مبارکہ کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی رو سے فیصلے نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ذاتی بصیرت کے مطابق کرتے تھے۔ جس میں اس بات کا بھی امکان ہو سکتا ہے کہ حق دار کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے(معاذ اللہ)۔منٹگمری واٹ اور پرویزی فتنے کے عقائد میں سرِ مو فرق نہیں۔
اگلے مرحلے میں مستشرقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا انکار کیا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ سموئیل مارگولیتھ چرچ آف انگلینڈ کا سپاہی تھا۔ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سفر معراج کا انکاری تھا۔
یہی نظریہ مستشرقین کی بوئی ہوئی جماعت قادیانیوں کے سرغنہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’حقیقت میں معراج ایک کشف تھا جو بڑا عظیم الشان اور صاف کشف تھا، اور اتم و اکمل تھا۔ کشف میں اس جسم کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ کشف میں جو جسم دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کا حجاب نہیں ہوتا بلکہ بڑی بڑی طاقتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اور آپ کو اسی جسم کے ساتھ جو بڑی طاقتوں والا ہوتا ہے، معراج ہوا۔‘‘(ملفوظات جلد دوم)
احادیث مبارکہ پر وار
مستشرقین یہ ثابت کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) احادیث دراصل گھڑی گئی ہیں اور ان کی حقیقت کچھ نہیں۔مستشرقین نے علم حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کہ دورِ اوّل کے مسلمان حدیث کو حجّت نہیں سمجھتے تھے، یہ خیال مسلمانوں میں بعد میں رائج ہوا۔
محدثین کے ہاں سند کی جو اہمیت ہے،وہ دلائل کی محتاج نہیں، حتی کہ انہو ں نے سند کو دین قرار دیا ہے ۔مستشرقین چوں کہ سند کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں،اس لیے انہوں نے سند کو من گھڑت قرار دے کر احادیث کو نا قا بل اعتبارقرار دینے کی کوشش کی اور دعوی کیا کہ اس دور میں لوگ مختلف اقوال اور افعال کورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے ۔
مستشرقین کا کہنا ہے کہ بہت سی احادیث و روایات یہود و نصاریٰ کی کتب سے متاثر ہو کر گھڑی گئی ہیں۔ جن احادیث میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی معجزانہ شان کا ذکر ہے ان پر ناپاک تبصرہ کرتے ہوئے ول ڈیورانٹ (Will Durant)کہتا ہے کہ’’ بہت سی احادیث نے مذہب اسلام کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ ان کے پاس معجزات دکھانے کی قوت ہے،لیکن سینکڑوں حدیثیں ان کے معجزانہ کار ناموں کا پتہ دیتی ہیں۔ اس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی احادیث عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تشکیل پزیر ہوئیں۔
مستشرقین نے اس گمراہ کن نظریے کو پروان چڑھایا کہ، چوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث لکھنے سے منع کر دیا تھا ،اس لیے دور اوّل کے علماء نے علم حدیث کی حفاظت میں سستی اور لاپروائی سے کام لیا، جس کے نتیجہ میں یا تو حدیثیں ضائع ہو گئیں یا پھر ان میں اس طرح کا اشتباہ پیدا ہو گیا کہ یقین کے ساتھ یہ کہنا ممکن نہ رہا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ مستشرق الفریڈ گیلوم (Alfred Guillaume)لکھتا ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حدیث کے بعض مجموعے اموی دور کے بعد مدوّن ہوئے۔مستشرق میکڈونلڈ لکھتا ہے کہ بعض محدثین کا صرف زبانی حفظ پر اعتماد کرنا اور ان لوگوں کو بدعتی قرار دینا جو کتابت حدیث کے قائل تھے ،یہ طرز عمل بالآخر سنت کے ضائع ہونے کا سبب بنا۔
مستشرقین نے ان عظیم شخصیات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو حدیث کی حفاظت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس کے لیے انہوں نے مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور نام ور تابعی امام ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کو خاص نشانہ بنایا۔گولڈ زیہر یہودی مستشرق تھا، اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر وضع حدیث کا الزام عائد کیا اورمحدث امام ابن شہاب زہری پر جھوٹی تہمت لگائی کہ وہ بنو امیہ کے مذہبی اور سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی طرف سے جھوٹی احادیث بناتے تھے۔
جوزف شاخت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ پر وضع حدیث کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ان کے زمانے میں مسلمانوں میں جو بھی عمل جاری تھا،اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردینے کا رجحان تھا، اس رجحان میں عراقی فقہاءامام اوزاعی کے ساتھ تھے۔‘‘
استشراق کے خلاف علماء کرام کی کاوشیں
الحمد للہ! مستشرقین کی جانب سے ان تمام لغو اعتراضات کا جواب علماء کرام دے کر انہیں جھوٹا اور گمراہ کن ثابت کرچکے ہیں۔ تاہم وہ سیدھے سادے مسلمان جو علم کی باریکیوں سے واقف نہیں اور نہ ہی علماء حق کی صحبتوں میں رہ کر دین سے واقفیت رکھتے ہیں مستشرقین کی چال بازیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماضی میں مستشرقین نے اسلام پر جو تنقید کی اس وقت کے علماء کرام نے ان کے مدلل جوابات دئیے تھے اور ان کی غلطیوں سے عوام کو روشناس کرایا۔ اس اہم فریضہ کو انجام دینے میں بالخصوص سیرت النبی کے حوالے سےمولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کانام نمایاں ہے۔
مستشرقین کے آلۂ کاروں کی پہچان
مستشرقین کے آلۂ کار میڈیا کے اینکرز، اخبارات کے کالم نویس، سوشل میڈیا پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے،ٹی وی پر مذہبی پروگرام کرنے والے جن کا حلیہ اور کردار شریعت و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا، کالج و یونیورسٹی کے پروفیسرز، وہ مذہبی رہنما جنہوں نے امریکہ و یورپ سے اسلامی تعلیم حاصل کی اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاتے ہیں جیسوں کے روپ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ دین اسلام، اسلامی احکامات اور علماء کرام کا مذاق اڑاتے ہیں یا کم از کم انہیں ماننے سے انکار کرتے ہیں، انہیں آج کے دور کے مطابق نہیں مانتے، خود قرآن پڑھ کر دین سمجھنے کو کہتے ہیں، احادیث کو نہیں مانتے اور صحابہ کرام کے اعمال کو قابل عمل قرار نہیں دیتے۔
فتنے سے نمٹنے کا حل
مستشرقین کے فتنے سے نمٹنے کے لیے علماء کرام کی جانب سے ایک حل یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ’’ہر آبادی علماء کی سعی اور خدمت سے آباد رہے۔ جاہلوں کو پڑھانا اور نادانوں کو سمجھا کر ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرنا ایک عالم دین کا فریضہ ہے۔‘‘
علماء کرام کے ساتھ عوام کا بھی فریضہ ہے کہ علماء کرام سے دین کے احکامات سیکھتے رہیں تاکہ کوئی ان کی راہ نہ مار سکے۔دین اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے، کوئی لاکھ کوشش کرلے دینِ حق کا چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ لہٰذا اپنے ساتھ اپنے متعلقین کو بھی اس فتنے کی ہولناکیوں سے آگاہ کریں۔ دین میں ہر نئے خیال و نظریہ کو ہوا دینے والے سے چوکنا رہیں۔اپنے آس پاس نظر رکھیں، جو شخص اسلام کی، اسلامی احکامات کی، دینی مسائل کی، اسلامی ہستیوں کی اور علماء کرام کی توہین کرے اس سے ہوشیار ہوجائیں اور مشرق و مغرب کی دوری اختیار کرلیں۔
آپ کو اپنے دین کی فکر خود کرنی ہے، اگر آپ نے اپنا دین نہ بچایا تو کوئی دوسرا اسے بچانے نہیں آئے گا۔