حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل ... !
جھانکتی ہیں تیرے آنچل سے حنائی انگلیاں
آ بھی جاؤ دے رہی ہیں اب دھائی انگلیاں
تھام رکھا ہے تمہارا ہاتھ ہم نے اس طرح
انگلیوں سے پا نہیں سکتیں رہائی انگلیاں
یاد ہے مجھ کو ابھی تک آخری لمحے کا لمس
مضطرب تھیں کس قدر وقت جدائی انگلیاں
خوبصورت انگلیوں کی زلف سے اٹکھیلیاں
کسطرح کرتی تھیں یاروں خود نمائی انگلیاں
محو گردش ہے کوئی مجذوب جیسے حال میں
تھیں کسی چہرے پہ رقصاں یوں فدائی انگلیاں
آج دیکھا ہے انہیں اس رنگ میں برسوں کے بعد
ہاتھ ، گجرا ، ریشمی آنچل ، مٹھائی ، انگلیاں
یوں میرے چہرے کو چھو کر دیکھتی ہیں بار بار
دے رہی ہوں جیسے اب اپنی صفائی انگلیاں
حسیب احمد حسیب
جھانکتی ہیں تیرے آنچل سے حنائی انگلیاں
آ بھی جاؤ دے رہی ہیں اب دھائی انگلیاں
تھام رکھا ہے تمہارا ہاتھ ہم نے اس طرح
انگلیوں سے پا نہیں سکتیں رہائی انگلیاں
یاد ہے مجھ کو ابھی تک آخری لمحے کا لمس
مضطرب تھیں کس قدر وقت جدائی انگلیاں
خوبصورت انگلیوں کی زلف سے اٹکھیلیاں
کسطرح کرتی تھیں یاروں خود نمائی انگلیاں
محو گردش ہے کوئی مجذوب جیسے حال میں
تھیں کسی چہرے پہ رقصاں یوں فدائی انگلیاں
آج دیکھا ہے انہیں اس رنگ میں برسوں کے بعد
ہاتھ ، گجرا ، ریشمی آنچل ، مٹھائی ، انگلیاں
یوں میرے چہرے کو چھو کر دیکھتی ہیں بار بار
دے رہی ہوں جیسے اب اپنی صفائی انگلیاں
حسیب احمد حسیب