محمد اجمل خان
محفلین
جھوٹ‘ جعلی خبریں اور افواہیں
آج پوری دنیا کی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی زندگی سوشل میڈیا کی کنٹرول میں ہے جو لوگوں کے جذبات و خیالات کو کنٹرول کرنے اور اُن کے اذہان پر اثر انداز ہونے والا سب سے طاقتور ہتھیار ہےجس میں فیس بک کا کردار سب سے اہم ہے جو کہ مثبت سے زیادہ منفی ہے۔
قریب 50 فیصد امریکی فیس بک یا فیس بک میں دیئے گئے لنک کے ذریعے معلومات اور خبروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ گزشتہ انتخاب میں فیس بک پر پھیلائی گئی جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں نے خصوصی اثرات مرتب کئے اور ہلری کلنٹن سروے میں آگے رہنے کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ جیت گئے۔
ایک سروے کے مطابق 75 فیصد امریکی جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں کو ہی سچ تسلیم کرتے ہیں۔ یہی حال ہر ملک کے عام شہریوں کا ہے جو تصدیق کیئے بغیر افواہوں پر ہی یقین کرلیتے ہیں۔
آج کل کسی بھی مذموم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں کو منٹوں میں اس کثرت سے وائرل کیا جاتاہے کہ عام لوگوں کا قابل اعتماد ذرائع ابلاغ اور حکومت کی واضح سچائی پر یقین کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
لہذا سوشل میڈیا پر وائرل کیئے گئے جھوٹ و افواہ ‘ نفرت و حقارت ‘ عریانیت و فحاشی وغیرہ پر مبنی تقاریر‘ تحاریر اور تصاویر وغیرہ سے بے حیائی و بے غیرتی پھیلانا‘ عورتوں کو ہراساں کرنا‘ حکمرانوں اور مذہبی رہنماوں کے خلاف ورغلانا‘ بغاوت کروانا‘ ملک و ملت سے نفرت‘ تعصب‘ فرقہ واریت‘ علاقائی و لسانی فسادات‘ مذہبی منافرت ‘ دہشتگردی وغیرہ کو فروغ دینا عام ہے جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
2009 ۔ 2010 میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے خلاف جو احتجاجات ہوئے وہ سوشل میڈیا اور فیس بک کی ہی کارستانی تھی۔
2011 میں لیبیا کی خانہ جنگی اور کرنل معمر کذافی کی حکومت کا خاتمہ کرنے اور انہیں عبرتناک انجام تک پہچانے میں فیس بک اوردیگر سوشل میڈیا کی جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
2014 میں اندونیشیا کی صدارتی انتخاب میں بھی فیس بک پر پھیلائے گئے جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں نے صدر’’جوکو وڈوڈو‘‘کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
2016 میں فیس بک کی جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں کی وجہ کر برازیل کی صدر ڈلما روسف کو اپنی عہدے سے برطرف ہوئیں۔
2016 میں برازیل میں فیس بک کے ایک اعلٰی عہدیدار کو فیس بک اور واٹس اپ پر جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں کو پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو بھی فیس بک اور سوشل میڈیا پر کافی تنقید اور افواہوں کا سامنا رہا اور وہ خود بھی بار بار سوشل میڈیا کو جھوٹ اور افواہ پھیلانے پر مورودِ الزام ٹھہراتی رہیں۔
2016 کی امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران سوشل میڈیا کی کئی پلیٹ فارمز سے عوامی رائے کو متاثر کرنے کیلئے جھوٹ‘جعلی خبروں اور افواہوں کو وائرل کیا گیا جس میں کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس بھی تنقید کا نشانہ بنے۔
یہ تو چند جھلکیاں ہیں ورنہ سوشل میڈیا جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں سے ہر ملک و معاشرہ میں بلکہ ہر انسان کی زندگی میں خطرناک منفی کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمان و مسلم اکثریت ممالک تو سوشل میڈیا کے خاص نشانے پر ہیں۔
لہذا سوشل میڈیا کسی بھی وقت کسی بھی ملک میں بغاوت‘ دہشتگردی‘ علاقائی و مذہبی اور لسانی فسادات پھیلانے میں جو بھیانک کردار ادا کر سکتا ہے اس کا فائدہ عالمی استعماری طاقتیں اُٹھاتی رہی ہیں اور اُٹھاتی رہیں گی۔
آج قریب سارے ہی مسلم اکثریت ممالک میں جو بغاوت‘ دہشتگردی‘ علاقائی و مذہبی اور لسانی فسادات ہیں اس میں میڈیا کا جھوٹ’ جعلی خبروں اور افواہوں کا کردار سرِفہرست ہے جس کی روک تھام کیلئے جہاں قانون سازی کی ضرورت ہے وہیں اسلامی تعلیمات سے مکمل استفادہ حاصل کرنا بھی ضروری ہے جسے اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی اس طرح کی جھوٹ اور افواہوں سے نمٹنے کیلئے وضح کر چکا ہے۔
اگرچہ آج مسلم معاشرے میں جھوٹ کی کثرت ہے اور سچ ناپید ہے پھر بھی نبی کریم ﷺ کی صرف ایک حدیث پر عمل کرکے مسلم ملک و معاشرے کو سوشل میڈیا کی جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
اور وہ حدیث ہے:
ایک اور روایت میں ہے: ’’ انسان کے گناہگار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے‘‘۔
اکثر سنی سنائی باتوں کو پھیلانے سے ہی ملک و معاشرے میں بغاوت و فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو بغیر تحقیق و تصدیق کے کوئی بھی پیغام یا خبر شیئر کرنا سخت منع ہے اور صرف اسی ایک قولِ رسول اللہ ﷺ پر عمل کرکے مسلم ملک و معاشرے کو سوشل میڈیا کی قباحتوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
لیکن تحقیق و تصدیق کرنا بھی ہر کسی کیلئے ممکن نہیں ‘ جس کیلئے بھی قرآن میں روشن ھدایت موجود ہے:
آج سوشل میڈیا پر لوگ ہر پیغام اور خبر کو کو بغیر سوچے سمجھے صرف کلک کر کر کے شیئر کرتے رہتے ہیں جو کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا ہی ایک قسم ہے۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنی کلک کی حفاظت کرنی چاہئے کہ کہیں ہم بھی جھوٹوں میں شامل نہ ہوجائیں
اور
جھوٹ‘ جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانا مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘ ۔ (متفق علیہ)
لہذا ہر مسلمان کو بذات خود یا حکومتی و مذہبی ذمہ دار افراد یا قابل اعتماد ذرائع ابلاغ وغیرہ کے ذریعے تحقیق و تصدیق کا ٹھوس موقف اپنانا چاہئے اور کسی بھی خبر یا پیغام کو شیئر کرنے میں جلد بازی سے بچنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
اور آپ ﷺ نے بھی جلد بازی کے بارے میں فرمایا: ’’ متانت اللہ کی طرف سے ہے، اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔
لہذا کتاب و سنت کی اِن تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بغیر سوچے سمجھے کسی بھی خبر یا پیغام ( خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو) کو کلک کرکے شیئر کرنے کی جلد بازی سے بچنا چاہئے‘ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور سچے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے:
ہر مسلمان کو ہر وقت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی اس وعید کو یاد رکھنا چاہئے:
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ یقینا جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں ‘‘ ۔ ( متفق علیہ)
اور یہ بھی فرمانِ باری تعالی ہے: ’’ وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘۔( ق : 1
پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی گناہ کا کام نہ کرے‘کوئی بھی خبر یا پیغام بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے۔
پس اس فتنے کے دور مین فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں جیسے فتنوں سے اور ان فتنوں کی وجہ کر پھیلنے والے فحاشی‘ فسادات‘ بغاوت و دہشتگردی وغیرہ سے اپنے آپ کو‘ اپنے اہل و عیال کو اور ملک و ملت کو بچانے کیلئے کتاب و سنت کی ان جامع تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں اسلام کی ہر تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنےاور ان پر عمل کرنے کی توفیق دیں۔ آمین۔
آج پوری دنیا کی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی زندگی سوشل میڈیا کی کنٹرول میں ہے جو لوگوں کے جذبات و خیالات کو کنٹرول کرنے اور اُن کے اذہان پر اثر انداز ہونے والا سب سے طاقتور ہتھیار ہےجس میں فیس بک کا کردار سب سے اہم ہے جو کہ مثبت سے زیادہ منفی ہے۔
قریب 50 فیصد امریکی فیس بک یا فیس بک میں دیئے گئے لنک کے ذریعے معلومات اور خبروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ گزشتہ انتخاب میں فیس بک پر پھیلائی گئی جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں نے خصوصی اثرات مرتب کئے اور ہلری کلنٹن سروے میں آگے رہنے کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ جیت گئے۔
ایک سروے کے مطابق 75 فیصد امریکی جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں کو ہی سچ تسلیم کرتے ہیں۔ یہی حال ہر ملک کے عام شہریوں کا ہے جو تصدیق کیئے بغیر افواہوں پر ہی یقین کرلیتے ہیں۔
آج کل کسی بھی مذموم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں کو منٹوں میں اس کثرت سے وائرل کیا جاتاہے کہ عام لوگوں کا قابل اعتماد ذرائع ابلاغ اور حکومت کی واضح سچائی پر یقین کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
لہذا سوشل میڈیا پر وائرل کیئے گئے جھوٹ و افواہ ‘ نفرت و حقارت ‘ عریانیت و فحاشی وغیرہ پر مبنی تقاریر‘ تحاریر اور تصاویر وغیرہ سے بے حیائی و بے غیرتی پھیلانا‘ عورتوں کو ہراساں کرنا‘ حکمرانوں اور مذہبی رہنماوں کے خلاف ورغلانا‘ بغاوت کروانا‘ ملک و ملت سے نفرت‘ تعصب‘ فرقہ واریت‘ علاقائی و لسانی فسادات‘ مذہبی منافرت ‘ دہشتگردی وغیرہ کو فروغ دینا عام ہے جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
2009 ۔ 2010 میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے خلاف جو احتجاجات ہوئے وہ سوشل میڈیا اور فیس بک کی ہی کارستانی تھی۔
2011 میں لیبیا کی خانہ جنگی اور کرنل معمر کذافی کی حکومت کا خاتمہ کرنے اور انہیں عبرتناک انجام تک پہچانے میں فیس بک اوردیگر سوشل میڈیا کی جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
2014 میں اندونیشیا کی صدارتی انتخاب میں بھی فیس بک پر پھیلائے گئے جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں نے صدر’’جوکو وڈوڈو‘‘کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
2016 میں فیس بک کی جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں کی وجہ کر برازیل کی صدر ڈلما روسف کو اپنی عہدے سے برطرف ہوئیں۔
2016 میں برازیل میں فیس بک کے ایک اعلٰی عہدیدار کو فیس بک اور واٹس اپ پر جھوٹ‘جعلی خبروں اور افوہوں کو پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو بھی فیس بک اور سوشل میڈیا پر کافی تنقید اور افواہوں کا سامنا رہا اور وہ خود بھی بار بار سوشل میڈیا کو جھوٹ اور افواہ پھیلانے پر مورودِ الزام ٹھہراتی رہیں۔
2016 کی امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران سوشل میڈیا کی کئی پلیٹ فارمز سے عوامی رائے کو متاثر کرنے کیلئے جھوٹ‘جعلی خبروں اور افواہوں کو وائرل کیا گیا جس میں کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس بھی تنقید کا نشانہ بنے۔
یہ تو چند جھلکیاں ہیں ورنہ سوشل میڈیا جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں سے ہر ملک و معاشرہ میں بلکہ ہر انسان کی زندگی میں خطرناک منفی کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمان و مسلم اکثریت ممالک تو سوشل میڈیا کے خاص نشانے پر ہیں۔
لہذا سوشل میڈیا کسی بھی وقت کسی بھی ملک میں بغاوت‘ دہشتگردی‘ علاقائی و مذہبی اور لسانی فسادات پھیلانے میں جو بھیانک کردار ادا کر سکتا ہے اس کا فائدہ عالمی استعماری طاقتیں اُٹھاتی رہی ہیں اور اُٹھاتی رہیں گی۔
آج قریب سارے ہی مسلم اکثریت ممالک میں جو بغاوت‘ دہشتگردی‘ علاقائی و مذہبی اور لسانی فسادات ہیں اس میں میڈیا کا جھوٹ’ جعلی خبروں اور افواہوں کا کردار سرِفہرست ہے جس کی روک تھام کیلئے جہاں قانون سازی کی ضرورت ہے وہیں اسلامی تعلیمات سے مکمل استفادہ حاصل کرنا بھی ضروری ہے جسے اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی اس طرح کی جھوٹ اور افواہوں سے نمٹنے کیلئے وضح کر چکا ہے۔
اگرچہ آج مسلم معاشرے میں جھوٹ کی کثرت ہے اور سچ ناپید ہے پھر بھی نبی کریم ﷺ کی صرف ایک حدیث پر عمل کرکے مسلم ملک و معاشرے کو سوشل میڈیا کی جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
اور وہ حدیث ہے:
”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے “۔ ( صحیح مسلم )
ایک اور روایت میں ہے: ’’ انسان کے گناہگار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے‘‘۔
اکثر سنی سنائی باتوں کو پھیلانے سے ہی ملک و معاشرے میں بغاوت و فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو بغیر تحقیق و تصدیق کے کوئی بھی پیغام یا خبر شیئر کرنا سخت منع ہے اور صرف اسی ایک قولِ رسول اللہ ﷺ پر عمل کرکے مسلم ملک و معاشرے کو سوشل میڈیا کی قباحتوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
لیکن تحقیق و تصدیق کرنا بھی ہر کسی کیلئے ممکن نہیں ‘ جس کیلئے بھی قرآن میں روشن ھدایت موجود ہے:
’’ اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے پھیلانا ( شیئر کرنا )شروع کر دیتے ہیں اور اگر اسے رسول (ﷺ) او ر اپنے میں سے صاحبانِ امر تک پہنچاتے تو اس (خبر کی حقیقت)کو جان لیتے جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں ‘‘ ۔ (سورة النساء۔83)
آج سوشل میڈیا پر لوگ ہر پیغام اور خبر کو کو بغیر سوچے سمجھے صرف کلک کر کر کے شیئر کرتے رہتے ہیں جو کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا ہی ایک قسم ہے۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنی کلک کی حفاظت کرنی چاہئے کہ کہیں ہم بھی جھوٹوں میں شامل نہ ہوجائیں
اور
’’ جو شخص جان بوجھ کر کوئی مشکوک خبر بیان کرے، تو وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہے‘‘( صحیح مسلم )
جھوٹ‘ جعلی خبریں اور افواہیں پھیلانا مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘ ۔ (متفق علیہ)
لہذا ہر مسلمان کو بذات خود یا حکومتی و مذہبی ذمہ دار افراد یا قابل اعتماد ذرائع ابلاغ وغیرہ کے ذریعے تحقیق و تصدیق کا ٹھوس موقف اپنانا چاہئے اور کسی بھی خبر یا پیغام کو شیئر کرنے میں جلد بازی سے بچنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
’’ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے ‘‘۔ (الحجرات : 6)
اور آپ ﷺ نے بھی جلد بازی کے بارے میں فرمایا: ’’ متانت اللہ کی طرف سے ہے، اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔
لہذا کتاب و سنت کی اِن تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بغیر سوچے سمجھے کسی بھی خبر یا پیغام ( خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی ہو) کو کلک کرکے شیئر کرنے کی جلد بازی سے بچنا چاہئے‘ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور سچے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہئے کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے:
’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو ‘‘۔(التوبة : 119)
ہر مسلمان کو ہر وقت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی اس وعید کو یاد رکھنا چاہئے:
’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ‘‘۔(الإسراء : 36)
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ یقینا جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں ‘‘ ۔ ( متفق علیہ)
اور یہ بھی فرمانِ باری تعالی ہے: ’’ وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘۔( ق : 1
پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی گناہ کا کام نہ کرے‘کوئی بھی خبر یا پیغام بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے۔
پس اس فتنے کے دور مین فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی جھوٹ‘ جعلی خبروں اور افواہوں جیسے فتنوں سے اور ان فتنوں کی وجہ کر پھیلنے والے فحاشی‘ فسادات‘ بغاوت و دہشتگردی وغیرہ سے اپنے آپ کو‘ اپنے اہل و عیال کو اور ملک و ملت کو بچانے کیلئے کتاب و سنت کی ان جامع تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں اسلام کی ہر تعلیمات کو سیکھنے‘ سمجھنےاور ان پر عمل کرنے کی توفیق دیں۔ آمین۔