ان دنوں جھوٹ کی مثال رشک و حسد کی بھول بھلیوں سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جب حسد کرنے والے لوگوں کو معاشرے نے ذلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تو "پارسا" قسم کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ ہم کیا کریں حسد نہیں کر سکتے اور کئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے رشک جیسا خوبصورت لفظ تراش لیا۔ تاکہ اپنا گزارہ حسد بھی ہوتا رہے اور پارسائی کا بھرم بھی برقرار رہے۔ ایسے ہی پارساؤں کے بارے میں تو شاعر کہہ گیا ہے کہ :
ہم گناہ گار تو آسودہ ملامت ہیں
یہ پارسا ہیں، ذرا ان پر بھی نظر رکھنا
ماہرین کلریات کے مطابق "جھوٹ" خوابوں کی طرح رنگین بھی ہوتے ہیں۔ بھئی سفید جھوٹ سے کون واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے سفید جھوٹ کے ہوتے ہوئے سیاہ جھوٹ بھی ہو گا کہ سفید کا تصور سیاہ کے بغیر ممکن نہیں اور جب سفید و سیاہ جھوٹ سے آپ واقف ہو گئے ہیں تو رفتہ رفتہ دیگر رنگوں کے جھوٹ سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ ویسے اگر سائنسی نگاہ سے دیکھا جائے تو سفید رنگ بذات خود سات رنگوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تو سفید جھوٹ بھی سات رنگین جھوٹوں کا مجموعہ ہوا۔ اب یہ ماہرین جھوٹ کا کام ہے کہ اس مجموعہ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام الناس کو متعارف کرائیں۔ بالکل اس طرح جیسے سائنس دانوں نے سفید روشنی کو سات رنگوں میں علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے۔ جھوٹ کے بارے میں آخر میں ایک "زنانہ جھوٹ" بھی سنتے جائیے کہ جھوٹ بولنے والوں کو کالا کوا کاٹا کرتا ہے یعنی (اگر سیاں) جھوٹ بولے (تو) کوا کاٹے، (لہذا اے سیاں!) کالے کوے سے ڈریو۔ (ورنہ۔۔۔)
************