جھیل اور چگوری

با ادب

محفلین
جھیل اور چگوری

کہانیاں عام لوگوں کی زندگیوں پر کیسے لکھی جا سکتی ہیں؟
سبھی لوگ عام ہوتے ہیں لیکن وہ جو محسوس کرتے ہیں اور زندگی کی لگی بندھی ڈگر سے ہٹ کر کوئی الگ راہ اختیار کرتے ہیں وہ عام نہیں رہتے اچانک وہ ریوڑ سے الگ ہو کر اکیلے اور تنہا ہو جاتے ہیں ۔
وہ تنہائی کو پسند نہیں کرتے لیکن انھیں وہ راستہ بھی پسند نہیں ہوتا جس پہ پرکھوں کے زمانے سے لے کر ان کے زمانے تک سب چل رہے ہوتے ہیں ۔
وہ متجسس ہوتے ہیں کہ چلیے دیکھیے کوئی اور راہ کوئی اور ڈگر ۔ آخر اللہ میاں کی اتنی بڑی دنیا میں ایک ہی راستہ انکے حصے میں کیوں آئے؟ کیوں نہ بہت سے راستوں پہ انکے نقش پا ثبت ہوں ۔ اور کیا جانیے کہ نئی راہ گزر پہ چلتے کہیں کوئی پھولوں کی بستی کوئی جھونپڑا جو کوہ کے دامن میں خالصتاً ان ہی کے لیے آباد ہو اچانک یکدم مل جائے راہوں کی دریافت کے انعام کے طور پر ۔
الگ راہ اختیار کرنے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جب زمانہ آپکو دیکھ کر آپ پہ ترس کھاتا ہے کہ دیکھو کیسے کم عقل ہیں سکھ کی چھایا چھوڑ کر دھوپ کی مشقت جھیلنے کو تیار چلے جا رہے ہیں تب وہ نہیں جانتے کہ یہ مشقت نہیں بے تابی ہے ' بے سکونی ہے' خلش ہے۔ اگر وہ سکھ کی چھایا میں بیٹھ گئے تو مر جائیں گے وہ بیٹھے رہنے کے لیے تخلیق نہیں ہوئے ۔
ہمارا ایک قدیم مسئلہ یہ ہے کہ ہم مختلف اور الگ چیزوں اور انسانوں کو برداشت کرنے کی شکتی سے محروم ہوتے ہیں ۔ انھیں سمجھنے کی بجائے ہم فوراً ان پہ ریجیکشن کا ٹھپہ لگا کے منہ پھیر کر انھیں اپنی لسٹ سے خارج کر دیتے ہیں ۔
ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمارا رخ شمال کی جانب ہے تو سبھی کو شمال کی سمت میں دیکھتے رہنا چاہیے کوئی بھی جنوب کی جانب کیوں دیکھے اور جو الگ سمت پہ نظریں گاڑے اس راہ کو تلاشتے ہیں جس پہ اب تک کسی کے قدموں کے نشان نہیں تو سبھی شمالی ناک بھوں چڑھا کے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں ۔
ہم جس دن سے پیدا ہوئے نگاہوں کا زاویہ جنوب کی سمت کیے رکھا ۔ اسے ہماری خوش قسمتی کہیے کہ گھر والوں نے اس راز کو پا لیا کہ اگر زبردستی شمال کی جانب موڑیں گے تو گردن تڑوا کے جان سے جائیں گی ہاتھ کچھ آنے والا نہیں ہے انکی محبت کہیے انھیں ہماری جان عزیز تھی رخ چاہے جو بھی ہو ۔
ہمارے گاؤں میں سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی پہ کھڑے ہوں تو ایک جانب دریائے سندھ کی جھیل کا مبہوت کر دینے والا نظارہ ہے دوسری سمت میں دور دکھائی دینے والے کے ٹو کے پہاڑ ہیں ۔ جو جھیل کی جانب رخ کر کے دیکھتے ہیں انکا بیانیہ برفانی پہاڑوں کی سمت دیکھنے والے سے یکسر مختلف ہے ۔
نیلگوں پانی کتنے خوبصورت ہیں نا؟
برف کی سفیدی حیران کیے دے رہی ہے ...
جانتی ہو اس جھیل پہ پاکستان کی سب سے بڑی ڈیم تعمیر کی گئی ہے
یہ پاکستان کا سب سے اونچا پہاڑ ہے
ابا کہتے ہیں جب گاؤں میں سڑک نہیں بنی تھی تو لوگ لانچ کا سفر کر کے گاؤں آیا کرتے تھے ۔
کہتے ہیں کوہ پیما ان پہاڑوں کے عشق میں دشوار گزار مسافت طے کرتے ہیں ۔

یہ پانی روز رنگ بدلتے ہیں یہ رات کی تاریکی میں چاند کی روشنی میں ہیرے کی کنیوں کی مانند چمکتے ہیں ۔

یہ برفیں سورج کی روشنی میں سات رنگوں میں نہاتی ہیں پرزم سے دیکھو .. انکو اللہ نے کیسا حسن عطا کیا ہے ۔

یہ جو جھیل ہے یہاں تتلیاں منڈلاتی ہیں

ان پہاڑوں پہ پریاں اترتی ہیں

لیکن یہاں تو جھیل ہے تم پہاڑوں کی بات کیوں کرتی ہو؟
جہاں میں کھڑی ہوں وہاں تو چگوری ہے چاندنی میں نہائی ہوئی ۔
تمھیں جھیل کیوں دکھائی نہیں دیتی
تم چگوری کو کیوں نہیں دیکھتے؟
مان جاؤ یہ جھیل ہے
ہر گز نہیں برف کا پہاڑ ہے
اور اگر ہم ساری عمر لڑتے رہیں تب بھی ایک دوسرے کی بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جو دیکھا ہی نہیں اسکو کیسے مان لیں ۔ دلیل مت دیجیے بس کندھوں سے پکڑ کے سمت بدل دیجیے دونوں سمجھ جائیں گے کہ جھیل بھی موجود ہے لیکن چگوری بھی شان سے کھڑی ہے ۔ ہم اپنی اپنی جگہ پہ کھڑے چلاتے رہتے ہیں
جھیل
نہیں برفیں
نہیں جھیل
یر گز نہیں ' پہاڑ ہیں
ایک بار نظر کا زاویہ بدل کے دیکھیے ۔ضرورت آواز بلند کرنے کی نہیں ہے ضرورت قدم اٹھا کے اپنی جگہ سے چل کر دوسرے کے مقام پہ کھڑے ہونے کی ہے پھر سب صاف نظر آئے گا ۔

سمیرا امام
 

سین خے

محفلین
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے :) آپ مختصر لکھتی ہیں لیکن پھر بھی قاری کو آپ کی تحریر سحر میں بآسانی جکڑ لیتی ہے۔ مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

نیا راستہ اپنانے پر لعنتیاں تو کھانی پڑتی ہی ہیں۔ مجھے بھی کبھی لگتا تھا کوئی بہت بڑا انعام نصیب ہوگا پر جانے کیوں اب تک ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس امید لگائے رکھی ہے کہ ایک دم ہو سکتا ہے کہ کبھی نا کبھی پھولوں کی بستی مل جائے :)
 

با ادب

محفلین
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے :) آپ مختصر لکھتی ہیں لیکن پھر بھی قاری کو آپ کی تحریر سحر میں بآسانی جکڑ لیتی ہے۔ مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

نیا راستہ اپنانے پر لعنتیاں تو کھانی پڑتی ہی ہیں۔ مجھے بھی کبھی لگتا تھا کوئی بہت بڑا انعام نصیب ہوگا پر جانے کیوں اب تک ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس امید لگائے رکھی ہے کہ ایک دم ہو سکتا ہے کہ کبھی نا کبھی پھولوں کی بستی مل جائے :)
ہم اپنا راستہ.کسی انعام کے چکر میں نہیں بدلتے بلکہ ہم ہوتے ہی مختلف ہیں ... ہاں اگر سمت کا تعین درست ہے راہ راست ہے تو یقین رکھیے کامیابی ضرور ملے گی ....
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
مسئلہ یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
 
Top