آصف شفیع
محفلین
ایک غزل احباب کی نذر:
جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے
وجودِ شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے
مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے
تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے
یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے
وہ دوستوں کو بتائے گا پیار کا قصہ
اور اس نے ذکر بہت کم ہمارا کرنا ہے
مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی ، آصف
اسی کے قرب کو حاصل دوبارہ کرنا ہے
جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے
وجودِ شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے
مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں
وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے
تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا
ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے
یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان
انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے
وہ دوستوں کو بتائے گا پیار کا قصہ
اور اس نے ذکر بہت کم ہمارا کرنا ہے
مری نگاہ میں جچتا نہیں کوئی ، آصف
اسی کے قرب کو حاصل دوبارہ کرنا ہے