عمر مقبول عاجز
محفلین
جہان کا نہیں دل کا خیال رکھ
ہے چیز عشق بھلی اس کو پال رکھ
پتھر بہت ہی لگیں گے ذرا سنبھل
یہ راہ عشق کی ہے کوئی ڈھال رکھ
ملیں گے درد بھرے جام سب یہاں
تو ہنس کے پینے کا ان کو کمال رکھ
تو چھین لے جو ترا ہے کٹا لے سر
کیا ہے عشق تو اتنی مجال رکھ
بہت ہوا کہ سبھی دیکھ لیں گے اب
میں راستے میں ہوں گھونگھٹ نکال رکھ
نہ ڈر جواب سے کچھ تو امید کر
خدا کا نام لے اپنا سوال رکھ
کہ سازشیں بھی ہوں گی وار بھی ہوں گے
بری بھلی ہی سہی تو بھی چال رکھ
یہ بال ایسے ہیں کالے ڈبو لیں سب
ذرا تو آنکھ میں ساحل نکال رکھ
یہ چاند بھی ہے پشیمان ہو رہا
کہ رخ سنبھال ذرا دیکھ بھال رکھ
وہ چوم لیتے ہیں بے حال لوگوں کو
لے کام عقل سے مرجھا ے گال رکھ
یوں بندگی بھی ہو دل کی لگی بھی عمر
تو زیست موت کی ایسی مثال رکھ
ہے چیز عشق بھلی اس کو پال رکھ
پتھر بہت ہی لگیں گے ذرا سنبھل
یہ راہ عشق کی ہے کوئی ڈھال رکھ
ملیں گے درد بھرے جام سب یہاں
تو ہنس کے پینے کا ان کو کمال رکھ
تو چھین لے جو ترا ہے کٹا لے سر
کیا ہے عشق تو اتنی مجال رکھ
بہت ہوا کہ سبھی دیکھ لیں گے اب
میں راستے میں ہوں گھونگھٹ نکال رکھ
نہ ڈر جواب سے کچھ تو امید کر
خدا کا نام لے اپنا سوال رکھ
کہ سازشیں بھی ہوں گی وار بھی ہوں گے
بری بھلی ہی سہی تو بھی چال رکھ
یہ بال ایسے ہیں کالے ڈبو لیں سب
ذرا تو آنکھ میں ساحل نکال رکھ
یہ چاند بھی ہے پشیمان ہو رہا
کہ رخ سنبھال ذرا دیکھ بھال رکھ
وہ چوم لیتے ہیں بے حال لوگوں کو
لے کام عقل سے مرجھا ے گال رکھ
یوں بندگی بھی ہو دل کی لگی بھی عمر
تو زیست موت کی ایسی مثال رکھ