جہاں جہاں مجھے صحرا دکھائی دیتا ہے (چترا سنگھ )

ظفری

لائبریرین

جہاں جہاں مجھے صحرا دکھائی دیتا ہے
میری طرح سے اکیلادکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

یہ کس مقام پہ لائی ہے جستجو تیری
جہاں سے عرش بھی نیچا کھائی دیتا ہے

یہ بھیگی پلکیں کسی کی یہ اشک بار آنکھیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے​
 

عؔلی خان

محفلین
شکیب جلالی بھی کیا غضب کا شاعر تھا-

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے

برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انھیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اپنے
وہ دور کوئی جزیرا دکھائی دیتا ہے

وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے

سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قدم بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے

کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیب
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
 
Top