کاشفی
محفلین
منقبت
(گل بخشالوی)
جہاں سے نقشِ ظلمت کا مٹانا کس کو آتا ہے
چراغ دین کا دنیا میں جلانا کس کو آتا ہے
رضائے رب کی خاظر گھر لُٹانا کس کو آتا ہے
قضا کی چھاؤں میں بھی مسکرانا کس کو آتا ہے
زمینِ کربلا آواز دے گی یہ قیامت تک
خدا کے نام پر قربان جانا کس کو آتا ہے
وہ منظر دیکھ کر ماتم کیے ہیںآسمانوں نے
غم شبیر علیہ السلام میں آنسو بہانا کس کو آتا ہے
زمانہ کب بھُلا سکتا ہے سقائے سکینہ کو
وفاداری میں یوں بازُو کٹانا کس کو آتا ہے
اُسی نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں کی یہی تعلیم تھی ورنہ
برستی آگ میں سجدے میں جانا کس کو آتا ہے
زمینِ نینوا گُلنار ہے، خونِ شہیداں سے
لہو رگ رگ کا گُل حق پر بہانا کس کو آتا ہے
(گل بخشالوی)
جہاں سے نقشِ ظلمت کا مٹانا کس کو آتا ہے
چراغ دین کا دنیا میں جلانا کس کو آتا ہے
رضائے رب کی خاظر گھر لُٹانا کس کو آتا ہے
قضا کی چھاؤں میں بھی مسکرانا کس کو آتا ہے
زمینِ کربلا آواز دے گی یہ قیامت تک
خدا کے نام پر قربان جانا کس کو آتا ہے
وہ منظر دیکھ کر ماتم کیے ہیںآسمانوں نے
غم شبیر علیہ السلام میں آنسو بہانا کس کو آتا ہے
زمانہ کب بھُلا سکتا ہے سقائے سکینہ کو
وفاداری میں یوں بازُو کٹانا کس کو آتا ہے
اُسی نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں کی یہی تعلیم تھی ورنہ
برستی آگ میں سجدے میں جانا کس کو آتا ہے
زمینِ نینوا گُلنار ہے، خونِ شہیداں سے
لہو رگ رگ کا گُل حق پر بہانا کس کو آتا ہے