مدیحہ گیلانی
محفلین
اپنی ایک پرانی کاوش آپ کی بصارتوں کی نذر
جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں
نشانوں میں ان کے قدم دیکھتے ہیں
ہمیں بس عطا ایک ان کی عطا ہے
ہیں ممنون ان کے کرم دیکھتے ہیں
سنا جب سے ہم نے وہ کہتے نہیں کچھ
ہیں لب بستہ نظرِ کرم دیکھتے ہیں
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں
ترا تذکرہ خود سے بھی کر نہ پائے
یہ کیسا ستم ہم بہم دیکھتے ہیں
ہیں آزاد لیکن قفس میں مقیّد
تماشا ہے کیسا ستم دیکھتے ہیں
ترا حکم ہم کو تھا حکمِ خدا پر
گلے پھر بھی تیرے نہ کم دیکھتے ہیں
یہ کیسا تصور کہ غالب ہوا ہے
ہر اک پل ہر اک جا صنم دیکھتے ہیں
کبھی دیکھ لیں ہم پلٹ کر جو ماضی
تو حال اپنی آنکھوں کا نم دیکھتے ہیں
خودی سے مزیّن لباسِ فقیراں
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"
ہیں ہاتھوں میں جن کے ہیں نیزے یہ بھالے
تھا سرمایہ ان کا قلم دیکھتے ہیں
جو لاچار پر ہو خطاکار پر بھی
فقط اک خدا کا کرم دیکھتے ہیں
سیدہ مدیحہ گیلانی