جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سیدہ مدیحہ گیلانی

اپنی ایک پرانی کاوش آپ کی بصارتوں کی نذر​
جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں​
نشانوں میں ان کے قدم دیکھتے ہیں​
ہمیں بس عطا ایک ان کی عطا ہے​
ہیں ممنون ان کے کرم دیکھتے ہیں​
سنا جب سے ہم نے وہ کہتے نہیں کچھ​
ہیں لب بستہ نظرِ کرم دیکھتے ہیں​
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک​
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں​
ترا تذکرہ خود سے بھی کر نہ پائے​
یہ کیسا ستم ہم بہم دیکھتے ہیں​
ہیں آزاد لیکن قفس میں مقیّد​
تماشا ہے کیسا ستم دیکھتے ہیں​
ترا حکم ہم کو تھا حکمِ خدا پر​
گلے پھر بھی تیرے نہ کم دیکھتے ہیں​
یہ کیسا تصور کہ غالب ہوا ہے​
ہر اک پل ہر اک جا صنم دیکھتے ہیں​
کبھی دیکھ لیں ہم پلٹ کر جو ماضی​
تو حال اپنی آنکھوں کا نم دیکھتے ہیں​
خودی سے مزیّن لباسِ فقیراں​
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"​
ہیں ہاتھوں میں جن کے ہیں نیزے یہ بھالے​
تھا سرمایہ ان کا قلم دیکھتے ہیں​
جو لاچار پر ہو خطاکار پر بھی​
فقط اک خدا کا کرم دیکھتے ہیں​
سیدہ مدیحہ گیلانی​
 

نایاب

لائبریرین
ماشاءاللہ
بہت خوب کلام محترم بہنا
بہت دعائیں شراکت پر ۔۔۔۔
کیا گہری گہری باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی دیکھ لیں ہم پلٹ کر جو ماضی
تو حال اپنی آنکھوں کا نم دیکھتے ہیں
خودی سے مزیّن لباسِ فقیراں
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"
ہیں ہاتھوں میں جن کے ہیں نیزے یہ بھالے
تھا سرمایہ ان کا قلم دیکھتے ہیں
جو لاچار پر ہو خطاکار پر بھی
فقط اک خدا کا کرم دیکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
et tu Brutus?
بہر حال اب تک شبہ ہی تھا کہ مدیحہ محض سخن فہم ہی نہیں، آج اس کا ثبوت مل گیا۔
اچھی کاوش ہے، ہر شعر خوب ہے۔ لیکن ’نظر کرم‘ میں نظر کا تلفظ پسند نہیں آیا۔
 

باباجی

محفلین
واہ بہت ہی خوب ، کچھ ایسے اشعار جو فقیری کی اساس ہوتے ہیں
بہت شکریہ شیئر کرنے کا

سنا جب سے ہم نے وہ کہتے نہیں کچھ​
ہیں لب بستہ نظرِ کرم دیکھتے ہیں​
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک​
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں​
یہ کیسا تصور کہ غالب ہوا ہے
ہر اک پل ہر اک جا صنم دیکھتے ہیں​
خودی سے مزیّن لباسِ فقیراں​
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"​
 
اپنی ایک پرانی کاوش آپ کی بصارتوں کی نذر​
جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں​
نشانوں میں ان کے قدم دیکھتے ہیں​
ہمیں بس عطا ایک ان کی عطا ہے​
ہیں ممنون ان کے کرم دیکھتے ہیں​
سنا جب سے ہم نے وہ کہتے نہیں کچھ​
ہیں لب بستہ نظرِ کرم دیکھتے ہیں​
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک​
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں​
ترا تذکرہ خود سے بھی کر نہ پائے​
یہ کیسا ستم ہم بہم دیکھتے ہیں​
ہیں آزاد لیکن قفس میں مقیّد​
تماشا ہے کیسا ستم دیکھتے ہیں​
ترا حکم ہم کو تھا حکمِ خدا پر​
گلے پھر بھی تیرے نہ کم دیکھتے ہیں​
یہ کیسا تصور کہ غالب ہوا ہے​
ہر اک پل ہر اک جا صنم دیکھتے ہیں​
کبھی دیکھ لیں ہم پلٹ کر جو ماضی​
تو حال اپنی آنکھوں کا نم دیکھتے ہیں​
خودی سے مزیّن لباسِ فقیراں​
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"​
ہیں ہاتھوں میں جن کے ہیں نیزے یہ بھالے​
تھا سرمایہ ان کا قلم دیکھتے ہیں​
جو لاچار پر ہو خطاکار پر بھی​
فقط اک خدا کا کرم دیکھتے ہیں​
سیدہ مدیحہ گیلانی​
کیا کہنے لطف آ گیا پڑھ کر :)
اس شعر نے تو بہت لطف دیا
سنا جب سے ہم نے وہ کہتے نہیں کچھ
ہیں لب بستہ نظرِ کرم دیکھتے ہیں
لب بستہ کی ترکیب خوب رہی​
آپکی غزل اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر تفصیلی تبصرہ کیا جائے​
فرصت میں کچھ عرض کروں گا​
ان چند سطروں سے حق ادا نہیں ہو گا​
اللہ کرے زور قلم زیادہ​
 
جہاں سے گزرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں
نشانوں میں ان کے قدم دیکھتے ہیں
ہمیں بس عطا ایک ان کی عطا ہے
ہیں ممنون ان کے کرم دیکھتے ہیں
بہت ہی عمدہ کلام۔​
ماشاءاللہ لاقوۃ الا باللہ!​
 

فلک شیر

محفلین
ہیں آزاد لیکن قفس میں مقیّد
تماشا ہے کیسا ستم دیکھتے ہیں
سبحان اللہ............​
آ پ کے ملتان کے جوانمرگ آنس معین کا شعر ہے کہ​
اس کے پیچھے چھپی ہیں کتنی دیواریں​
جسم کی یہ دیوار گرا کر دیکھوں گا​
 

عینی شاہ

محفلین
واہ واہ واہ ۔۔:thumbsup: اتنا بیٹوفل لکھا آپ نے آپا ۔:) ویسے یہ مجھے دو تین لائینز کے علاوہ سب سمجھ میں ا گیا ہے ۔:p
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ
خوب است۔۔۔ غالب کی زمین میں عمدہ اشعار نکالے ہیں آپ نے۔ مبارک باد
 

سید زبیر

محفلین
بہت عمدہ شاعری ہے ، مزید بھی شئیر کرتی رہیں ، سدا خوش رہیں
گماں کی حدوں سے یقیں کے خَطوں تک
ستم ہی ستم بس ستم دیکھتے ہیں
بہت اعلیٰ
 

احسن مرزا

محفلین
ہیں ہاتھوں میں جن کے ہیں نیزے یہ بھالے
تھا سرمایہ ان کا قلم دیکھتے ہیں
عمدہ اشعار محترمہ۔ ڈھیروں داد!
 
Top