ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ایک پرانی غزل آپ کی بصارتوں کی نذر!
جہاں پر آبِ رواں سے چٹان ملتی ہے
وہیں سے موج کو اکثر اٹھان ملتی ہے
جہاں بھی دستِ توکل نے کچھ نہیں چھوڑا
وہیں سے دولتِ کون و مکان ملتی ہے
جو قفلِ ذات کرے ضربِ عشق سے دو نیم
اُسے کلیدِ زمان و مکان ملتی ہے
کریں گمان تو جاتی ہے دولتِ ایمان
رہے یقین تو پھر بے گمان ملتی ہے
اُسی کا سر سرِ نیزہ پہ رکھا جا تا ہے
مرے قبیلے میں جس کو کمان ملتی ہے
فشارِ درد سے ہوتا ہے میرا خامہ رواں
دہانِ زخم کو گویا زبان ملتی ہے
زمانہ اب وہ کہاں زورِ بال و پر کا ظہیرؔ
ہوا سے دوستی ہو تو اڑان ملتی ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸
جہاں پر آبِ رواں سے چٹان ملتی ہے
وہیں سے موج کو اکثر اٹھان ملتی ہے
جہاں بھی دستِ توکل نے کچھ نہیں چھوڑا
وہیں سے دولتِ کون و مکان ملتی ہے
جو قفلِ ذات کرے ضربِ عشق سے دو نیم
اُسے کلیدِ زمان و مکان ملتی ہے
کریں گمان تو جاتی ہے دولتِ ایمان
رہے یقین تو پھر بے گمان ملتی ہے
اُسی کا سر سرِ نیزہ پہ رکھا جا تا ہے
مرے قبیلے میں جس کو کمان ملتی ہے
فشارِ درد سے ہوتا ہے میرا خامہ رواں
دہانِ زخم کو گویا زبان ملتی ہے
زمانہ اب وہ کہاں زورِ بال و پر کا ظہیرؔ
ہوا سے دوستی ہو تو اڑان ملتی ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸