نبیل
تکنیکی معاون
ماخذ: جہلم سے اغوا ہونے والا ساحل بازیاب، بی بی سی اردو ڈاٹ کام
اس موقع پر برطانوی سفارت کار نے برطانوی اور پاکستانی حکام کے درمیان تعاون کی تعریف کی۔ انہوں نے جہلم پولیس کا بھی بچے کی بحفاظت بازیابی میں کامیابی پر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ بازیابی کیسے ممکن ہوئی۔
ساحل کو چار مارچ کو نامعلوم افراد نے والد کے ساتھ گھر سے واپس برطانیہ کے لیے روانگی کے وقت اغوا کر لیا تھا۔ ان کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ اغوا کارروں نے پہلے گھر کو لوٹا اور جاتے ہوئے بچے کو بھی ساتھ لے گئے۔
بعض اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے بچے کی رہائی کے بدلے بڑی تاوان کی رقم کا تقاضا بھی کیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ رقم ادا کی گئی یا نہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساحل سعید کی بازیابی کی تصدیق کی اور کہا کہ بچے کے اغوا سے پاکستان کو بری پبلسٹی مل رہی تھی اور ’ہم اذیت کا شکار تھے۔‘ انھوں نے بچے کے اہلِ خانہ کو مبارک باد دی اور کہا کہ ’ہمیں اصل لوگوں کا (جو بچے کے اغوا میں ملوث ہو سکتے ہیں) پتہ چل گیا ہے۔‘
یہ خبر کچھ نامکمل سی لگ رہی ہے۔ ایک برطانوی بچے کی بازیابی اس لیے ممکن ہو پائی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان کو بری پبلسٹی مل رہی تھی، ورنہ جو ہزاروں لوگ اغوا اور لاپتہ ہو رہے ہیں ان سے پاکستان کی ریپوٹیشن کو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے اس لیے ان کی بازیابی بھی کبھی نہیں ہو پائے گی۔ اور نہ جانے کس بات کی پردہ داری ہے کہ اغوا کرنے والوں کا یا بچے کی بازیابی کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔
اس موقع پر برطانوی سفارت کار نے برطانوی اور پاکستانی حکام کے درمیان تعاون کی تعریف کی۔ انہوں نے جہلم پولیس کا بھی بچے کی بحفاظت بازیابی میں کامیابی پر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ بازیابی کیسے ممکن ہوئی۔
ساحل کو چار مارچ کو نامعلوم افراد نے والد کے ساتھ گھر سے واپس برطانیہ کے لیے روانگی کے وقت اغوا کر لیا تھا۔ ان کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ اغوا کارروں نے پہلے گھر کو لوٹا اور جاتے ہوئے بچے کو بھی ساتھ لے گئے۔
بعض اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے بچے کی رہائی کے بدلے بڑی تاوان کی رقم کا تقاضا بھی کیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ رقم ادا کی گئی یا نہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساحل سعید کی بازیابی کی تصدیق کی اور کہا کہ بچے کے اغوا سے پاکستان کو بری پبلسٹی مل رہی تھی اور ’ہم اذیت کا شکار تھے۔‘ انھوں نے بچے کے اہلِ خانہ کو مبارک باد دی اور کہا کہ ’ہمیں اصل لوگوں کا (جو بچے کے اغوا میں ملوث ہو سکتے ہیں) پتہ چل گیا ہے۔‘
یہ خبر کچھ نامکمل سی لگ رہی ہے۔ ایک برطانوی بچے کی بازیابی اس لیے ممکن ہو پائی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان کو بری پبلسٹی مل رہی تھی، ورنہ جو ہزاروں لوگ اغوا اور لاپتہ ہو رہے ہیں ان سے پاکستان کی ریپوٹیشن کو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے اس لیے ان کی بازیابی بھی کبھی نہیں ہو پائے گی۔ اور نہ جانے کس بات کی پردہ داری ہے کہ اغوا کرنے والوں کا یا بچے کی بازیابی کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔