mmubin
محفلین
افسانہ
جہنماز:۔ایم مبین
تین دن میں پتہ چل گیا کہ مگن بھائی نےاسےکمرہ کرایےپر نہیں دیا بلکہ اسےکمرہ کرائےپر دینےکےنام پر ٹھگ لیا ہے۔ اب سوچتا ہےتو اسےخود حیرت ہوتی ہےکہ اس سےاتنی بڑی غلطی کس طرح ہوگئی ؟ بس کچھ دیر کےلئےوہ اس بستی میں آیا ۔ مگن بھائی نےاپنی چال کا بند کمرہ کھول کر اسےبتایا10x12کا کمرہ تھا ۔ جس کےایک کونےمیں کچن بنا ہوا تھا ۔ اس سےلگ کر چھوٹا سا باتھ روم جسےعرف عام میں موری کہا جاسکتا تھا ۔ کمرہ میں ایک دروازہ تھا جو تنگ سی گلی میں کھلتا تھا ۔ دو کھڑکیاں تھیں ہوا اور روشنی کا کافی اچھا انتظام تھا ۔ زمین پر رف لادی تھی ۔ کمرےکا پلاسٹر جگہ جگہ سےاکھڑا ہوا تھا لیکن سمینٹ کا تھا ۔ چھت پترےکی تھی ۔ گلی کےدونوں جانب کچےجھونپڑوں کا سلسلہ تھا جو دور تک پھیلا تھا ۔ وسط سےایک نالی بہہ رہی تھی ۔ جس سےگندہ پانی ابل کر چاروں طرف پھیل رہا تھا جس کی بدبو سےدماغ پھٹا جارہا تھا ۔ مگن بھائی کی وہ چال سات آٹھ کمروں پر مشتمل تھی ۔ اس کےذہن نےفیصلہ کیا کہ اسےاس شہر میں اتنا اچھا کمرہ اتنےکم داموں پر کرائےپر نہیں مل سکتا ہے۔ اس شہر میں اس سےاچھےکمرےکی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔ وہ فوراً کمرہ لینےپر راضی ہوگیا ۔ دوسرےدن اس نےپچیس ہزار روپےمگن بھائی کو ڈپازٹ کےطور پر ادا کئی۔ مگن بھائی نےفوراً کرایہ کےمعاہدےکےکاغذات دستخط کرکےاس کےحوالےکردئے۔ بجلی اور پانی کا اپنی طور پر انتظام کرنےکےبعد اسےکرائےکےطور پر ہر ماہ مگن بھائی کو صرف سو روپےادا کرنےتھے۔ کرائےکا قرار نامہ صرف گیارہ ماہ کےلئےتھا لیکن مگن بھائی نےوعدہ کیا تھا وہ گیارہ ماہ کےبعد بھی اس سےوہ کمرہ خالی نہیں کرائےگا ۔ وہ جب تک چاہےاس کمرہ میں رہ سکتا ہے۔ اگر اس کا کہیں دوسری جگہ اس سےبہتر انتظام ہوجاتا ہےتو وہ اپنی ڈپازٹ کی رقم واپس لےکر کمرہ خالی کرسکتا ہے۔ اس شام اپنےدوست کےگھر سےاپنا مختصر سا سامان لےکر دوست اور اس کےگھر والوں کو خدا حافظ کہہ کر وہ اپنےنئےگھر میں آگیا ۔ دو تین گھنٹےتو کمرےکی صفائی میں لگ گئےباقی تھوڑےسےسامان کو قرینےسےسجانےمیں ۔ کمرےمیں بجلی کا انتظام تھا ۔ اسےصرف بلب لگانےپڑے۔ کمرےکی صفائی سےوہ اتنا تھک گیا تھا کہ اس رات وہ بنا کھائےپئےہی سو گیا ۔ سویرےحسبِ معمول چھ بجےکےقریب آنکھ کھلی تو اپنےآپ کو وہ تر و تازہ محسوس کررہا تھا ۔ بستی میںپانی آیا تھا ۔ گھر کےسامنےایک سرکاری نل پر عورتوں کی بھیڑ تھی ۔ ” پانی کا انتظام کرنا چاہیئے۔ “ اس نےسوچا ۔ لیکن پانی بھرنےکےلئےکوئی برتن نہیں تھا ۔ چہل قدمی کرتےہوئےاپنےگھر سےتھوڑی دور آیا تو اسےایک کرانےکی دوکان نظر آئی ۔ اس دوکان پر لٹکےپانی کےکین دیکھ کر اس کی بانچھیں کھل گئیں ۔ کین خرید کر وہ نل پر آیا اور نمبر لگا کر کھڑا ہوگیا ۔ نل پر پانی بھرتی عورتیں اسےعجیب نظروں سےگھور کر آپس میں ایک دوسرےکو کچھ اشارےکررہی تھیں ۔ اس کا نمبر آیا تو اس نےکین بھرا اور اپنےگھر آگیا ۔ نہا دھو کر کپڑےبدلےگھر میں وہ ناشتہ تو بنا نہیں سکتا تھا۔ ناشتہ بنانےکےلئےدرکار کوئی چیز بھی نہیں تھی ۔ کسی ہوٹل میں ناشتہ کرنےکا سوچتا ہوا وہ گھر سےباہر نکل آیا ۔ سوچا ناشتہ کرنےتک آفس کا وقت ہوجائےگا تو وہ آفس چلا جائےگا ۔ اس دن وہ اپنےآپ کو بےحد چاک و چوبند اور خوش و خرم محسوس کررہا تھا ۔ ایک احساس بار بار اس کےاندر ایک کروٹیں لےرہا تھا کہ اب وہ اس شہر میں بےگھر نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایک گھر تو ہے۔ کل تک یہ احساس اسےکچوکتا رہتا کہ اس کےپاس ایک اچھی نوکری ہےلیکن رہنےکےلئےایک چھت نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی چھت کےنیچےپناہ لئےہوئےہی۔ اور اس چھت کی پناہ کبھی بھی اس کےسر سےہٹ سکتی ہے۔ اسےاپنی قابلیت کی بنا پر اس شہر میں نوکری تو مل گئی تھی ۔ لیکن اس شہر میں اس کا نہ تو کوئی رشتہ دار تھا اور نہ شناسا ۔ اس نےڈیوٹی جوائنٹ تو کرلی لیکن رہائش کا سب سےبڑا مسئلہ کسی عفریت کی طرح اس کےسامنےمنہ پھاڑےکھڑا تھا ۔ اس مسئلےکا وقتی حل اس نےایک درمیانی درجےکےہوٹل میں ایک کمرہ کرائےسےلےکر نکال لیا ۔ کچھ دنوں میں ہی اسےمحسوس ہوا کہ اس کی تنخواہ میں وہ اس ہوٹل میں صرف رہ سکتا ہے‘ کھاپی نہیں سکتا ۔ اس لئےاس نےدوسرےسہارےکی تلاش شروع کردی ۔ اسےایک ہوسٹل میں سر چھپانےکی جگہ مل گئی ۔ دو چار مہینےاس نےاس ہوسٹل میں نکالے۔ لیکن ایک دن وہ سخت مصیبت میں پھنس گیا ۔ ایک دن پولس نےاس نےہوسٹل پر چھاپا مارا اور اس ہوسٹل کےسارےمکینوں کو گرفتار کرلیا ۔ اس ہوسٹل سےپولس کو منشیات ملی تھیں ۔ اس ہوسٹل میں کچھ غیر سماجی عناصر منشیات کا کاروبار کرتےتھے۔ بڑی مشکل سےوہ پولس کےچنگل سےچھوٹ پایا ۔ وہ ایک بار پھر بےگھر ہوگیا تھا ۔ وہ اپنےلئےکسی چھت کی تلاش کررہا تھا کہ اچانک اس کی ملاقات ایک دوست سےہوگئی ۔ وہ دوست کافی دنوں کےبعد ملا تھا ۔ اس دوست کا اس شہر میں چھوٹا سا کاروبار تھا ۔ اس نےاپنا مسئلہ اس کےسامنےرکھا تو اس نےبڑےخلوص سےاس کو پیش کش کی کہ جب تک تمہارا کوئی انتظام نہیں ہوجاتا تم میرےگھر میں رہ سکتےہو ۔ انتظام ہونےکےبعد چلےجانا ۔ اسےاُس وقت اپنا وہ دوست ایک فرشتہ معلوم ہوا ۔ وہ اپنےاس دوست کےگھر رہنےلگا ساتھ ہی ساتھ اپنےلئےکوئی کمرہ ڈھونڈنےلگا ۔ شہر میں کرائےسےمکان ملنا مشکل تھا ۔ مکان خریدنےکی اس کی استطاعت نہیں تھی ۔ جو مکان ملتےتھےان کا کرایہ اس کی نصف تنخواہ سےزائد تھا اس پر ڈپازٹ کی کثیر رقم کی شرط ۔ کچھ دنوں بعد تھک ہار کر اس نےسوچا کہ اسےایسےعلاقوں میں مکان تلاش کرنا چاہیئےجہاں کمروں کےدام کم ہوں بھلےہی وہ علاقےاس کےمزاج و معیار کےنہ ہوں ۔ اسےاس سےکیا لینا دینا ہے۔ اسےصرف رات میں ایک چھت چاہیئے۔ دن بھر تو وہ آفس میں رہےگا ۔اسےایک اسٹیٹ ایجنٹ نےمگن بھائی سےملایا ۔ مگن بھائی نےبتایا کہ بستی میں ان کی چال میں ایک کمرہ خالی ہےوہ پچیس ہزار روپےڈپازٹ پر دیں گے۔
” ٹھیک ہےمگن بھائی ! میں ڈپازٹ کا انتظام کرکےآپ سےملتا ہوں ۔ “ کہہ کر وہ چلاآیا اور پیسوں کےانتظام میں لگ گیا ۔ اتنےپیسوں کا انتظام بہت مشکل تھا ۔ اپنےشہر جاکر اس نےدوستوں اور رشتہ داروں سےقرض لیا اور گھر کےزیورات ایک بینک میں گہن رکھ کر قرض لیا اور پیسوں کا انتظام کرکےواپس آیا ۔ مگن بھائی نےکمرہ دکھایا اس نےکمرہ پسند کرکےپیسےمگن بھائی کو دئےاور رہنےلگا ۔ شام کو جب وہ ضروری سامان سےلدا اپنےگھر آیا تو اپنےگھر کےقریب پہونچنےپر اس کےقدم زمین میں گڑ گئے۔ گلی میں چاروں طرف پولس پھیلی ہوئی تھی ۔
” کیا بات ہےبھائی ! یہ گلی میں پولس کیوں آئی ہے؟ “ اس نےایک آدمی سےپوچھا ۔
” ہوگا کیا ؟ دارو کےاڈےپر جھگڑا ہوا اس میں چاقو چل گئےاور ایک آدمی ٹپک گیا ۔ “ یہ کہتا ہوا وہ آدمی آگےبڑھ گیا ۔
” تو اس جگہ شراب کا اڈہ بھی ہے؟ “ سوچتا ہوا وہ اپنےگھر کی طرف بڑھا اور سامان پیروں کےپاس رکھ کر دروازہ کھولنےلگا ۔ سامان گھر میں رکھ کر وہ معاملہ کی تفصیلات جاننےکےلئےباہر آیا تو تب تک پولس جاچکی تھی اور لاش بھی اٹھوائی جاچکی تھی ۔ آس پاس کےلوگ جمع ہوکر اس واقعہ کےبارےمیں باتیں کررہےتھے۔
” ابھی تو پولس نےاڈہ بند کردیا ہے۔ کل پھر شروع ہوجائےگا ۔“
” یہ اڈہ ہےکہاں ؟ “ اس نےپوچھا تو وہ لوگ اسےسر سےپیر تک دیکھنےلگے۔
” بابو کس دنیا میں ہو ؟ تم جس چال میں رہتےہو اسی میں تو دارو کا اڈہ ہے۔“
” میری چال میں شراب کا اڈہ ؟ “ اس نےحیرت سےیہی بات دہرائی ۔
” ہاں ! نہ صرف شراب خانہ بلکہ ایک جُوئےکا اڈہ بھی ہے۔ ایک کمرےمیں منشیات فروخت ہوتی ہیں اور دوسرےدو کمروں میں دھندہ کرنےوالیاں رہتی ہیں ۔ “یہ سنتےہی اس کی آنکھوں کےسامنےتارےناچنےلگے۔ اس کی چال میں شراب ‘ جوئےاور منشیات کےاڈےہیں یہاں طوائفیں بھی رہتی ہیں اور اب وہ اسی چال میں رہ رہا ہے۔ اس دن تو اسےصرف اس بات کا پتہ چلا کہ وہ کیسی جگہ رہنےآیا ہےلیکن دوچار دنوں کےبعد اسےیہ پتہ چلا کہ وہاں رہنا کتنا بڑا عذاب ہے۔ لوگ بےدھڑک گھر میں گھس آتےتھےاور طرح طرح کی فرمائشیں کرتےتھے۔
” ایک بوتل چاہیئے۔“
” ذرا ایک افیون کی گولی دینا ۔“
” ایک گرَد کی پوڑی دینا ۔“
” جمنا بائی کو بلانا ‘ آج اس کا فل نائٹ کا ریٹ دےگا ۔ “ وہ یہ سب سن کر اپنا سر پکڑ لیتا اور اس شخص کو پکڑ کر باہر کردیتا اور اسےبتاتا کہ اسےاس کی مطلوبہ چیز کہاں مل سکتی ہے۔ اس درمیان اسےپتہ چل گیا تھا کہ کہاں کون سا
دھندہ چلتا ہےاور اس دھندےکا مالک کون ہے۔ دروازہ کھلا چھورنا ایک سر درد تھا اس لئےاس نےدروازےکو ہمیشہ بند رکھنےمیں ہی عافیت سمجھی ۔ لیکن دروازہ بند رکھنا تو اور بھی سر درد تھا ۔ دروازہ زور زور سےپیٹا جاتا ۔ جیسےابھی توڑ دیا جائےگا ۔ وہ جھلا کر دروازہ کھولتا تو وہی سوال سامنےہوتےتھےجو دروازہ کھلا ہونےپر اجنبیوں کےذریعہ گھر میں گھس کر پوچھےجاتےتھے۔ وہ سوچتا وہ اکیلا ہےصرف رات کو یہاس سونےکےلئےآتا ہےتو اس کا یہ حال ہی۔ اس کےبجائےوہ یا کوئی بھی شریف آدمی اپنی فیملی کےساتھ تو ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ہے۔ یہاں اس کا رہنا محال ہےتو بھلا وہ اپنی فیملی یہاں لانےکےبارےمیں کس طرح سوچ سکتا ہے۔ ہر روز ایک نئی کہانی ‘ ایک نیا ہنگامہ اور ایک نیا واقعہ سامنےآتا تھا ۔ شرابی جواری آپس میں لڑ پڑتےاور یہ تو ایک عام سی بات تھی ۔ ایک گاہک جمنا بائی کےگھر میں جانےکی بجائےسامنےوالےرگھو کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی سےچھیڑ خانی کرنےلگا ۔ پولس چھاپا مارنےآئی تو شراب کا اڈہ چلانےوالوں نےشراب کےایک دو کین پیچھےرہنےوالےگنپت کےگھر میں چھپا دئےپولس نےوہ کین ڈھونڈ نکالے۔اڈہ چلانےوالےتو بھاگ گئےلیکن بےچارہ گنپت اس جرم میں پکڑا گیا ۔ سامنےکی شیاملہ بائی جمنا بائی کےکمرےکےپاس کھڑی تھی پولس نےجمنا بائی کےاڈےپر ریڈ کی اور جسم فروشی کرنےکےجرم میں شیاملہ کو پکڑ کر لےگئی ۔ وہ بڑی مشکل سےچھوٹ پائی ۔ منشیات کا دھندا کرنےوالےسعید کےگھر میں منشیات پھینک گئےاور پولس سعید کےگھر سےمنشیات برآمد کرکےاسےاٹھالےگئی ۔ یہ سارےواقعات دیکھ کر اس کا دل دہشت کےمارےدہل جاتا تھا ۔ وہ سوچتا کہ ہوسکتا ہےیہ واقعہ کل اس کےساتھ بھی ہو ۔ غنڈےاس کےکمرےمیں منشیات پھینک جائیں یا شراب رکھ جائیں اور پولس اس کےگھر سےوہ چیزیں برآمد کرکےاسےبھی اسی طرح پکڑ کر لےجائے۔جمنا بائی اس کےکمرےکےسامنےکھڑی ہوکر کسی گاہک سےمول تول کررہی ہوگی اور پولس جمنا کو تو دھر لےگی اور اسےبھی اس جرم میں گرفتار کر کےلےجائےگی ۔ کہ وہ اس جگہ جسم فروشی کا دھندہ کرواتا ہے۔