خرم شہزاد خرم
لائبریرین
جہیز یہ ایک عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی اسباب یا سامان کے ہیں۔ اصلاحاََ اس سروسامان کو کہتے ہیں جو لڑکی شادی کے وقت اپنے ساتھ لاتی ہے۔ اب بات کرتے ہیں جہیز کی شرعی حیثیت پر کسی بھی عمل کو جائز یا نا جائز کہنے کے لیے ہمیں اللہ ، یا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا کوئی حکم درکار ہے ، عادات کے امت کے اماموں اور علماء کا یہ قانون ہے کہ """ العادات اصل فیھا الاباحیۃ ::: عادات کا بنیادی حکم جائز ہونا ہے ::: اِلا ما نَھیٰ عنھا اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ::: سوائے اس کے جس سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو "" ممانعت کا حکم کئی صیغوں اور انداز میں پایا جاتا ہے ،
بہرحال ، وہ عادات جن پر ممانعت وارد نہیں جائز ہیں کوئی بھی ایسا کام جس میں کوئی شرعی ممانعت نا ہو اسے نا جائز نہیں کہا جا سکتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں چار چیزیں عنایت فرمائیں ، جیسا کہ صحیح احادیث میں ملتا ہے کہ ((( أَنَّ رَسُولَ صلى اللَّهِ عليه وسلم لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَهَا بِخَمِيلَةٍ وَوِسَادَةٍ من آدم حَشْوُهَا لِيفٌ وَرَحَيَيْنِ وَسِقَاءٍ وَجَرَّتَيْنِ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا تو ان کے ساتھ ایک مخملی کپڑا اور تکیہ جس پر پتوں کی رگوں کا غلاف تھا اور دو چکییاں (یعنی دو پاٹ والی چکی ) اور دو چھوٹے مشکیزے بھیجے ))) مسند احمد ، الاحادیث المختارہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس عمل مبارک کی روشنی میں جہیز دینا کوئی """ مقامی کلچر """ نہیں رہتا ، بلکہ اسلامی شریعت میں ایک جائز کام قرار پاتا ہے ، اسے """ کسی معاشرے کا مقامی کلچر""" قرار دینا یا کہنا درست نہیں ، اور نہ ہی اسے یکسر ناجائز کہا جا سکتا ہے جب تک کہ اس کام کی کیفیت میں کوئی اور ناجائز یا حرام کام شامل نہ ہو جائے ، مثلا جہیز ، اگر حرام مال سے دیا جائے ، یا ، اپنی اولاد میں سے دوسروں کا حق مار کر دیا جائے ، یا ، معاملہ فضول خرچی کی حدود میں داخل ہو جائے ، یا بلا ضرورت دیا جائے ، تو یقینا ایسی صورت میں نا جائز ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں جہیز ایک لعنت کی شکل اختیار کر گیا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ پر میں بات کروں گا ایک تو یہ آج کے دور میں لوگو کی حیثیت اور مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کتنا جہیز دے سکتے ہیں۔ شادی پر کتنا خرچ کر سکتے ہیں۔ دوسرا لوگ خود بھی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دیں تاکہ وہ اپنے سُسرار میں پرشان نا ہو ۔تیسرا۔ لڑکے والے کوشش کرتے ہیں ایسے خاندان میں شادی کی جائے جو ہمیں ہمارے مرتبے کے مطابق جہیز دیں۔ امیر حضرات تو اپنی بیٹی کو انتہا سے زیادہ جہیز دیتے ہیں جس کی وجہ سے غریب لوگ بھی اس مصیبت کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی ناک رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کر کے جہیز دیتے ہیں جن کی وجہ سے بعد میں بہت سی پرشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب دور ایسا آ گیا ہے کہ جہیز کی اس لعنت سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہو گیا ہے لیکن پھر بھی کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔میرے خیال میں تو صرف اور صرف نوجوان ہی اس لعنت سے چھٹکارا دلوا سکتے ہیں اگر تمام نوجوان خود اپنے زور و بازو پر جہیز لینے سے انکار کر دیں۔ اور امیر لڑکی والے اگر اپنی بیٹوں کو اتنا جہیز دیں کہ غریب والدین بھی اپنی بیٹیوں کو اتنا جہیز دیں سکے تو کسی حد تک اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے
خرم شہزاد خرم
بہرحال ، وہ عادات جن پر ممانعت وارد نہیں جائز ہیں کوئی بھی ایسا کام جس میں کوئی شرعی ممانعت نا ہو اسے نا جائز نہیں کہا جا سکتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں چار چیزیں عنایت فرمائیں ، جیسا کہ صحیح احادیث میں ملتا ہے کہ ((( أَنَّ رَسُولَ صلى اللَّهِ عليه وسلم لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَهَا بِخَمِيلَةٍ وَوِسَادَةٍ من آدم حَشْوُهَا لِيفٌ وَرَحَيَيْنِ وَسِقَاءٍ وَجَرَّتَيْنِ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کیا تو ان کے ساتھ ایک مخملی کپڑا اور تکیہ جس پر پتوں کی رگوں کا غلاف تھا اور دو چکییاں (یعنی دو پاٹ والی چکی ) اور دو چھوٹے مشکیزے بھیجے ))) مسند احمد ، الاحادیث المختارہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس عمل مبارک کی روشنی میں جہیز دینا کوئی """ مقامی کلچر """ نہیں رہتا ، بلکہ اسلامی شریعت میں ایک جائز کام قرار پاتا ہے ، اسے """ کسی معاشرے کا مقامی کلچر""" قرار دینا یا کہنا درست نہیں ، اور نہ ہی اسے یکسر ناجائز کہا جا سکتا ہے جب تک کہ اس کام کی کیفیت میں کوئی اور ناجائز یا حرام کام شامل نہ ہو جائے ، مثلا جہیز ، اگر حرام مال سے دیا جائے ، یا ، اپنی اولاد میں سے دوسروں کا حق مار کر دیا جائے ، یا ، معاملہ فضول خرچی کی حدود میں داخل ہو جائے ، یا بلا ضرورت دیا جائے ، تو یقینا ایسی صورت میں نا جائز ہو گا۔
ہمارے معاشرے میں جہیز ایک لعنت کی شکل اختیار کر گیا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ پر میں بات کروں گا ایک تو یہ آج کے دور میں لوگو کی حیثیت اور مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کتنا جہیز دے سکتے ہیں۔ شادی پر کتنا خرچ کر سکتے ہیں۔ دوسرا لوگ خود بھی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دیں تاکہ وہ اپنے سُسرار میں پرشان نا ہو ۔تیسرا۔ لڑکے والے کوشش کرتے ہیں ایسے خاندان میں شادی کی جائے جو ہمیں ہمارے مرتبے کے مطابق جہیز دیں۔ امیر حضرات تو اپنی بیٹی کو انتہا سے زیادہ جہیز دیتے ہیں جس کی وجہ سے غریب لوگ بھی اس مصیبت کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی ناک رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کر کے جہیز دیتے ہیں جن کی وجہ سے بعد میں بہت سی پرشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب دور ایسا آ گیا ہے کہ جہیز کی اس لعنت سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہو گیا ہے لیکن پھر بھی کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے۔میرے خیال میں تو صرف اور صرف نوجوان ہی اس لعنت سے چھٹکارا دلوا سکتے ہیں اگر تمام نوجوان خود اپنے زور و بازو پر جہیز لینے سے انکار کر دیں۔ اور امیر لڑکی والے اگر اپنی بیٹوں کو اتنا جہیز دیں کہ غریب والدین بھی اپنی بیٹیوں کو اتنا جہیز دیں سکے تو کسی حد تک اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے
خرم شہزاد خرم