بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام بے شمار آسانیاں پیدا کرنے والا مذہب ہے۔ اسلام نے صحیح معنوں میں عورت کی قدر بتائی۔ لیکن آج اسلام کے ماننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے غلط رسومات اور کاموں کو اپنا کر اپنی زندگی اور عورت کو عذاب سمجھ رکھا ہے۔ خاس طور پر ہمارے معاشرے میں جس دن کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے اُسی دن والدین کو اُس کی شادی کی فکر شروع ہو جاتی ہے کہ جہیز بنانا ہے۔ بس شروع دن سے جہیز کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی طرح والدین جہیز کے لئے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں۔
اب یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ
کیا جہیز ضروری ہے؟
کیا جہیز ایک غلط چیز ہے؟
جہیز نہ دینے سے کیا ہو گا؟
اگر ہم جہیز کے ضروری ہونے کی بات کریں تو یہ کوئی فرض نہیں اور ساتھ ہی یہ کوئی غلط چیز نہیں وہ اس طرح کہ اگر کوئی والدین صاحبِ حیثیت ہیں، اگر وہ اپنی بیٹی کو ضروریات زندگی کا کچھ سامان دے بھی دیں تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ اگر کوئی حرج ہے، اگر کوئی مسئلہ ہے، اگر کوئی غلطی ہے تو وہ ہماری سوچ میں ہے۔ سوچ کا اندازہ آپ یہاں سے لگائیں کہ اگر لڑکی اپنے بھائیوں سے وراثت مانگے تو وہ غلط ہے کیونکہ اسے جہیز جو دے دیا ہے۔ ہماری سوچ اتنی غلط ہو چکی ہے کہ جو کام اسلام نے کہا ہے اُسے چھوڑ کر جہیز جیسی بے بنیاد رسم کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دراصل ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر طرف بغض، کینہ، حسد اور مادیئیت پرستی کی ہوائیں بلکہ طوفان برپا ہیں۔ ہم بس یہ سوچتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں یہ کچھ دیا ہے تو ہم اُس سے زیادہ دیں گے۔بس اسی جھوٹی انا کی خاطر اپنی زندگی عذاب، بیٹی کو ایک بوجھ اور جہیز کو ایک لعنت بنا کر رکھ دیا ہے۔
جہیز کی وجہ سے لڑکی کے والدین کی زندگی عذاب بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ لڑکے اور لڑکے کے خاندان کا ہے۔ اب ہم اس بات کے تناظر میں جہیز نہ دینے سے کیا ہو گا دیکھتے ہیں۔ لڑکی کے والدین کے ذہن میں جو بات سب سے زیادہ ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر جہیز نہ دیا تو لڑکا کیا کہے گا؟ لڑکے کے خاندان والے کیا کہیں گے؟ بس اسی بات کی وجہ سے زیادہ تر والدین نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کو طعنوں سے بچانے کے لئے مجبوری میں جہیز دیتے ہیں کہ کہیں اُن کی بیٹی کو "بے داجی"(جہیز کے بغیر) ہونے کا طعنہ نہ ملے۔
ہمارے ہاں باتیں بہت ہوتی ہیں لیکن عمل رتی برابر بھی نہیں۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں بڑے بڑے سیانے اور پڑھے لکھے لڑکے اور اُن کے خاندان والے بہو کے جہیز کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ بے غیرتی میں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ خود سے کچھ کرنا ہو یا نہ ہو، کسی کام کی فکر ہو یا نہ ہو لیکن ہونے والی بیوی کے جہیز کی بڑی فکر ہوتی ہے۔ یوں تو گھر داماد بننا بے غیرتی لگتی ہے لیکن انہیں گھر والوں کے پیسے اور چیزیں جو جہیز میں آتی ہیں انہیں استعمال کرنا فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
اب آتے ہیں کہ جہیز کو ختم کیسے کیا جائے تو میرے خیال میں سب سے پہلے اپنی اور معاشرے کی جھوٹی انا اور جھوٹی غیرت کو ختم کر کے سوچ کو صحیح رخ کی طرف موڑنا ہو گا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ زیادہ تر لڑکیوں کے والدین جہیز دینے کے معاملے میں مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کی خوشی اور سسرالی طعنوں کی فکر ہوتی ہے۔ اب اس چیز کو ختم کرنے کے لیے لڑکوں کے خاندان والوں اور سب سے بڑ کر لڑکوں کو غیرت کھانا ہو گی اور جنگی بنیادوں پر انقلابی قدم اٹھانا ہونگے کیونکہ اگر لڑکے جہیز کی مخالفت کریں اور سختی سے خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنے خاندان والوں کو بھی سمجھائیں تو یہ جہیز ختم ہو سکتا ہے اور لڑکی کے سسرال سے کوئی طعنہ بھی نہیں دے سکتا کیونکہ جہیز نہ لینے کا سارا ذمہ انہیں کے لڑکے پر ہو گا۔ لڑکے اگر "مرد" بنیں تو یہ بھار اٹھا سکتے ہیں اور اس طرح جہیز سے نجات اور لڑکی کے والدین کی مجبوری ختم کر سکتے ہیں۔
اگر آپ معاشرتی لحاظ سے غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ جس معاشرے میں بیٹی کی پیدائش سے لے کر اس کی شادی تک والدین جہیز اور اسی طرح کی فضول رسومات کی وجہ سے ہر وقت پریشانی میں رہتے ہیں وہاں وہ قوم کی کیا خاک پرورش کر پائیں گے۔ جس معاشرے میں لاکھوں روپیہ غریبوں کی بجائے، کاروبار میں لگانے کی بجائے اور تعلیم وغیرہ پر لگانے کی بجائے صرف جہیز اور غیرضروری رسومات کی نظر ہو جاتا ہے وہاں معاشی ترقی کیا خاک ہو گی۔
اسلئے اے میرے دوستو! آؤ کچھ غیرت کھائیں اور جہیز کے خلاف بولیں اور انقلابی قدم اٹھا کر لڑکیوں کے والدین کی پریشانیاں اور مجبوریاں ختم کریں تاکہ وہ اس فضول فکر کو چھوڑ کر قوم کی پرورش اور تعلیم پر توجہ دیں تاکہ ایک بہترین معاشرہ تشکیل پا سکے جہاں بیٹی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی اور جشن ہو جیسے بیٹے کی پیدائش پر ہوتا ہے اور قوم کی بیٹیوں کا اصل معیار سامنے آئے یعنی بیٹی کو زخمت کی بجائے رحمت سمجھا جائے۔۔۔
اسلام بے شمار آسانیاں پیدا کرنے والا مذہب ہے۔ اسلام نے صحیح معنوں میں عورت کی قدر بتائی۔ لیکن آج اسلام کے ماننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے غلط رسومات اور کاموں کو اپنا کر اپنی زندگی اور عورت کو عذاب سمجھ رکھا ہے۔ خاس طور پر ہمارے معاشرے میں جس دن کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے اُسی دن والدین کو اُس کی شادی کی فکر شروع ہو جاتی ہے کہ جہیز بنانا ہے۔ بس شروع دن سے جہیز کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی طرح والدین جہیز کے لئے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں۔
اب یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں کہ
کیا جہیز ضروری ہے؟
کیا جہیز ایک غلط چیز ہے؟
جہیز نہ دینے سے کیا ہو گا؟
اگر ہم جہیز کے ضروری ہونے کی بات کریں تو یہ کوئی فرض نہیں اور ساتھ ہی یہ کوئی غلط چیز نہیں وہ اس طرح کہ اگر کوئی والدین صاحبِ حیثیت ہیں، اگر وہ اپنی بیٹی کو ضروریات زندگی کا کچھ سامان دے بھی دیں تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ اگر کوئی حرج ہے، اگر کوئی مسئلہ ہے، اگر کوئی غلطی ہے تو وہ ہماری سوچ میں ہے۔ سوچ کا اندازہ آپ یہاں سے لگائیں کہ اگر لڑکی اپنے بھائیوں سے وراثت مانگے تو وہ غلط ہے کیونکہ اسے جہیز جو دے دیا ہے۔ ہماری سوچ اتنی غلط ہو چکی ہے کہ جو کام اسلام نے کہا ہے اُسے چھوڑ کر جہیز جیسی بے بنیاد رسم کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دراصل ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر طرف بغض، کینہ، حسد اور مادیئیت پرستی کی ہوائیں بلکہ طوفان برپا ہیں۔ ہم بس یہ سوچتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو جہیز میں یہ کچھ دیا ہے تو ہم اُس سے زیادہ دیں گے۔بس اسی جھوٹی انا کی خاطر اپنی زندگی عذاب، بیٹی کو ایک بوجھ اور جہیز کو ایک لعنت بنا کر رکھ دیا ہے۔
جہیز کی وجہ سے لڑکی کے والدین کی زندگی عذاب بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ لڑکے اور لڑکے کے خاندان کا ہے۔ اب ہم اس بات کے تناظر میں جہیز نہ دینے سے کیا ہو گا دیکھتے ہیں۔ لڑکی کے والدین کے ذہن میں جو بات سب سے زیادہ ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر جہیز نہ دیا تو لڑکا کیا کہے گا؟ لڑکے کے خاندان والے کیا کہیں گے؟ بس اسی بات کی وجہ سے زیادہ تر والدین نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کو طعنوں سے بچانے کے لئے مجبوری میں جہیز دیتے ہیں کہ کہیں اُن کی بیٹی کو "بے داجی"(جہیز کے بغیر) ہونے کا طعنہ نہ ملے۔
ہمارے ہاں باتیں بہت ہوتی ہیں لیکن عمل رتی برابر بھی نہیں۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں بڑے بڑے سیانے اور پڑھے لکھے لڑکے اور اُن کے خاندان والے بہو کے جہیز کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ بے غیرتی میں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ خود سے کچھ کرنا ہو یا نہ ہو، کسی کام کی فکر ہو یا نہ ہو لیکن ہونے والی بیوی کے جہیز کی بڑی فکر ہوتی ہے۔ یوں تو گھر داماد بننا بے غیرتی لگتی ہے لیکن انہیں گھر والوں کے پیسے اور چیزیں جو جہیز میں آتی ہیں انہیں استعمال کرنا فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
اب آتے ہیں کہ جہیز کو ختم کیسے کیا جائے تو میرے خیال میں سب سے پہلے اپنی اور معاشرے کی جھوٹی انا اور جھوٹی غیرت کو ختم کر کے سوچ کو صحیح رخ کی طرف موڑنا ہو گا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ زیادہ تر لڑکیوں کے والدین جہیز دینے کے معاملے میں مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بیٹی کی خوشی اور سسرالی طعنوں کی فکر ہوتی ہے۔ اب اس چیز کو ختم کرنے کے لیے لڑکوں کے خاندان والوں اور سب سے بڑ کر لڑکوں کو غیرت کھانا ہو گی اور جنگی بنیادوں پر انقلابی قدم اٹھانا ہونگے کیونکہ اگر لڑکے جہیز کی مخالفت کریں اور سختی سے خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنے خاندان والوں کو بھی سمجھائیں تو یہ جہیز ختم ہو سکتا ہے اور لڑکی کے سسرال سے کوئی طعنہ بھی نہیں دے سکتا کیونکہ جہیز نہ لینے کا سارا ذمہ انہیں کے لڑکے پر ہو گا۔ لڑکے اگر "مرد" بنیں تو یہ بھار اٹھا سکتے ہیں اور اس طرح جہیز سے نجات اور لڑکی کے والدین کی مجبوری ختم کر سکتے ہیں۔
اگر آپ معاشرتی لحاظ سے غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ جس معاشرے میں بیٹی کی پیدائش سے لے کر اس کی شادی تک والدین جہیز اور اسی طرح کی فضول رسومات کی وجہ سے ہر وقت پریشانی میں رہتے ہیں وہاں وہ قوم کی کیا خاک پرورش کر پائیں گے۔ جس معاشرے میں لاکھوں روپیہ غریبوں کی بجائے، کاروبار میں لگانے کی بجائے اور تعلیم وغیرہ پر لگانے کی بجائے صرف جہیز اور غیرضروری رسومات کی نظر ہو جاتا ہے وہاں معاشی ترقی کیا خاک ہو گی۔
اسلئے اے میرے دوستو! آؤ کچھ غیرت کھائیں اور جہیز کے خلاف بولیں اور انقلابی قدم اٹھا کر لڑکیوں کے والدین کی پریشانیاں اور مجبوریاں ختم کریں تاکہ وہ اس فضول فکر کو چھوڑ کر قوم کی پرورش اور تعلیم پر توجہ دیں تاکہ ایک بہترین معاشرہ تشکیل پا سکے جہاں بیٹی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی اور جشن ہو جیسے بیٹے کی پیدائش پر ہوتا ہے اور قوم کی بیٹیوں کا اصل معیار سامنے آئے یعنی بیٹی کو زخمت کی بجائے رحمت سمجھا جائے۔۔۔