جہیز ۔۔۔

حجاب

محفلین
جہیز !!!!!!! اس چار حرفی لفظ نے صدیوں سے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، امیر ہوں یا غریب ، جاہل ہوں یا پڑھے لکھے سب ہی اس فرسودہ رسم پر کسی نہ کسی طرح عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوں لیکن مجموعی طور پر جہیز کا انتظام کرنا سب کے لیئے مشکل اور پریشانیوں کا باعث ہی بنتا ہے ۔ خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لیئے جن کے مالی حالات بہتر نہیں ہوتے لیکن اُنہیں بھرم رکھنے کے لیئے کسی نہ کسی طرح جہیز دینا پڑتا ہے ۔ جہیز کے معنی اُس ساز وسامان کے ہیں جس کی دلہن کو گھر بسانے، یا کسی بھی مسافر کو سفر کے دوران ضرورت ہو سکتی ہے ۔ قرآن مجید ، احادیث کی کتابوں میں جہیز کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ، اسلام کے بنیادی قوانین میں بھی جہیز کا کوئی ذکر نہیں ، جہیز نکاح کا حصّہ نہیں ہے اس کا تعلق اسطاعت کے ساتھ ہے کہ والدین اپنی خوشی سے اگر بیٹی کو کچھ دینا چاہیں تو اُس میں کوئی قباحت نہیں ۔ حضور صلی اللہُ وسلّم نے اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیً عنہُ کو کچھ سامان رخصتی کے وقت دیا تھا جس میں ایک جائے نماز، تکیہ اور مٹی کے سادہ برتن دیئے تھے اس لیئے بیٹی کو کچھ سامان دینے کا ذکر ثابت ہے لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں جہیز کے نام پر جو تماشہ ہو رہا ہے وہ ظلم والدین کو ٹارچر کر کے اُن کا ذہنی سکون تباہ و برباد کردیتا ہے ۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی بیٹی کا مستقبل اچھا ہو اسی بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے والدین اپنی مرضی سے جتنا ہوسکے دیتے ہیں مگر شوہر یا اُس کے گھر والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ شرعاً ناجائز ہے ۔ بیوی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور گھریلو ضرورت کے سامان مہیا کرنا شوہر کے فرائض میں شامل ہے ، جب کہ آج کل ایسا نہیں ہوتا جہیز کی لمبی لسٹ دولہا والوں کی طرف سے تمھا دی جاتی ہے شادی نہ ہوئی کوئی کاروباری معاملہ طئے کرنا ہوا یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ لڑکے والے اپنے بیٹے کی قیمت لگا رہے ہوتے ہیں ۔ کاش لڑکے والے یہ سوچ لیں کہ جب والدین اپنی بیٹی دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں تو مزید ساز و سامان کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے ؟؟ مسلم معاشرہ ہمیشہ ہندوؤں کی رسمیں اپناتا آیا ہے ، جہیز کی رسم بھی ہندوؤں سے آئی ہے ،پھرمسلم بھی جہیز ۔۔۔ دھیج سمجھ کرمانگنے لگے، ہندو اپنے قانون کے مطابق بیٹی کو وراثت میں حصّہ نہیں دیتے تھے اسی وجہ سے شادی کے وقت ضرورت کا ہر سامان دیا کرتے تھے ، یہی رسم آہستہ آہستہ مسلمانوں میں آئی اور اس طرح جہیز دینے کے بعد وراثت میں سے لڑکیوں کا حصّہ مسلم معاشرے میں بھی ختم ہوتا گیا ۔ جہیز کی رسم کے خاتمے کے لیئے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے لیئے سب سے بہترین کوشش تعلیم عام کرنا ہے تاکہ لوگوں کا شعور بیدار ہو، تعلیم ہی سے سوچ میں تبدیلی آ سکتی ہے ( یہ الگ بات کہ بعض پڑھے لکھے جاہل بھی ہوتے ہیں اُن کا کوئی علاج نہیں ہوتا )بہر حال اگر جہیز کو لڑکی کی ضرورت کے تحت جائز بھی کہا جائے تو بھی لڑکے والے جہیز کے نام پر فائدہ اُٹھا ہی لیتے ہیں ۔اگر والدین بیٹی کا رشتہ طئے کرتے وقت ہی اندازہ لگا لیں کہ جہیز کے بارے میں لڑکے والوں کے کیا خیالات ہیں تو بعد میں سر پکڑ کے اُن کی فرمائشوں کو پورا کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی ایسے لالچی لوگوں کے رشتے سے انکار کردیں ،لڑکے والے یہ سوچ کر کسی لڑکی کو انکار کرتے ہیں کہ اس سے بہتر جگہ شادی ہو جائے گی تو لڑکی والے کیوں انکار نہیں کر سکتے ؟ اگر اُس کو کوئی اچھا مل سکتا ہے تو لڑکی کو بھی لالچی سسرال سے اچھا سسرال مل سکتا ہے ۔جب تک جہیز کے بارے میں لڑکوں کے گھر والوں کے ذہنوں میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ جہیز کا مطالبہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے اُس وقت تک جہیز کا مطالبہ کیا جاتا رہے گا۔ اور غریب اور متوسط گھرانوں کو اسی طرح بیٹیوں کے جہیز کی فکر ستاتی رہے گی ۔ کوئی لڑکی جہیز کم لے جائے اُس کو سسرال میں بات بات پر طعنے ملتے رہیں گے ، ان سب باتوں سے چھٹکارا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تمام لڑکوں کی مائیں اور تمام لالچی لڑکے کُھلے دل کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ ہمیں نیک سیرت بہو اور بیوی چاہیئے ، اور لڑکی والے جو کچھ اپنی خوشی سے دینا چاہیں وہ اپنی حیثیت کے مطابق دیں ، اس کے علاوہ جہیز کے بغیر شادی کا ایک راستہ کورٹ میرج ہے ، ہر چیز کی بچت ہو سکتی ہے، شرط ہے ہمت کی ۔۔۔ اور اس طرح کی ہمت آئندہ سو سالوں میں بھی ہمارا معاشرہ کُھلے دل سے قبول کرتا نظر نہیں آتا۔۔۔۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں قانون بنائے جیسے ایوب خان کے دورمیں جہیز کی رسم کے خلاف ایک کوشش کی گئی تھی لیکن بہتر نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا، کیونکہ لوگ چوری چھپے جہیز دینے لگے تھے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا قانون نافذ کیا جائے جس کے تحت جہیز لینا اور دینا دونوں کو ایک سنگین جرم قرار دیا جائے تاکہ ہمارا معاشرہ جہیز کی لعنت سے پاک ہوسکے۔
 

ارتضی حسن

محفلین
جہیز !!!!!!! اس چار حرفی لفظ نے صدیوں سے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، امیر ہوں یا غریب ، جاہل ہوں یا پڑھے لکھے سب ہی اس فرسودہ رسم پر کسی نہ کسی طرح عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوں لیکن مجموعی طور پر جہیز کا انتظام کرنا سب کے لیئے مشکل اور پریشانیوں کا باعث ہی بنتا ہے ۔ خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لیئے جن کے مالی حالات بہتر نہیں ہوتے لیکن اُنہیں بھرم رکھنے کے لیئے کسی نہ کسی طرح جہیز دینا پڑتا ہے ۔ جہیز کے معنی اُس ساز وسامان کے ہیں جس کی دلہن کو گھر بسانے، یا کسی بھی مسافر کو سفر کے دوران ضرورت ہو سکتی ہے ۔ قرآن مجید ، احادیث کی کتابوں میں جہیز کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ، اسلام کے بنیادی قوانین میں بھی جہیز کا کوئی ذکر نہیں ، جہیز نکاح کا حصّہ نہیں ہے اس کا تعلق اسطاعت کے ساتھ ہے کہ والدین اپنی خوشی سے اگر بیٹی کو کچھ دینا چاہیں تو اُس میں کوئی قباحت نہیں ۔ حضور صلی اللہُ وسلّم نے اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیً عنہُ کو کچھ سامان رخصتی کے وقت دیا تھا جس میں ایک جائے نماز، تکیہ اور مٹی کے سادہ برتن دیئے تھے اس لیئے بیٹی کو کچھ سامان دینے کا ذکر ثابت ہے لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں جہیز کے نام پر جو تماشہ ہو رہا ہے وہ ظلم والدین کو ٹارچر کر کے اُن کا ذہنی سکون تباہ و برباد کردیتا ہے ۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی بیٹی کا مستقبل اچھا ہو اسی بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے والدین اپنی مرضی سے جتنا ہوسکے دیتے ہیں مگر شوہر یا اُس کے گھر والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ شرعاً ناجائز ہے ۔ بیوی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور گھریلو ضرورت کے سامان مہیا کرنا شوہر کے فرائض میں شامل ہے ، جب کہ آج کل ایسا نہیں ہوتا جہیز کی لمبی لسٹ دولہا والوں کی طرف سے تمھا دی جاتی ہے شادی نہ ہوئی کوئی کاروباری معاملہ طئے کرنا ہوا یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ لڑکے والے اپنے بیٹے کی قیمت لگا رہے ہوتے ہیں ۔ کاش لڑکے والے یہ سوچ لیں کہ جب والدین اپنی بیٹی دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں تو مزید ساز و سامان کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے ؟؟ مسلم معاشرہ ہمیشہ ہندوؤں کی رسمیں اپناتا آیا ہے ، جہیز کی رسم بھی ہندوؤں سے آئی ہے ،پھرمسلم بھی جہیز ۔۔۔ دھیج سمجھ کرمانگنے لگے، ہندو اپنے قانون کے مطابق بیٹی کو وراثت میں حصّہ نہیں دیتے تھے اسی وجہ سے شادی کے وقت ضرورت کا ہر سامان دیا کرتے تھے ، یہی رسم آہستہ آہستہ مسلمانوں میں آئی اور اس طرح جہیز دینے کے بعد وراثت میں سے لڑکیوں کا حصّہ مسلم معاشرے میں بھی ختم ہوتا گیا ۔ جہیز کی رسم کے خاتمے کے لیئے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے لیئے سب سے بہترین کوشش تعلیم عام کرنا ہے تاکہ لوگوں کا شعور بیدار ہو، تعلیم ہی سے سوچ میں تبدیلی آ سکتی ہے ( یہ الگ بات کہ بعض پڑھے لکھے جاہل بھی ہوتے ہیں اُن کا کوئی علاج نہیں ہوتا )بہر حال اگر جہیز کو لڑکی کی ضرورت کے تحت جائز بھی کہا جائے تو بھی لڑکے والے جہیز کے نام پر فائدہ اُٹھا ہی لیتے ہیں ۔اگر والدین بیٹی کا رشتہ طئے کرتے وقت ہی اندازہ لگا لیں کہ جہیز کے بارے میں لڑکے والوں کے کیا خیالات ہیں تو بعد میں سر پکڑ کے اُن کی فرمائشوں کو پورا کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے ہی ایسے لالچی لوگوں کے رشتے سے انکار کردیں ،لڑکے والے یہ سوچ کر کسی لڑکی کو انکار کرتے ہیں کہ اس سے بہتر جگہ شادی ہو جائے گی تو لڑکی والے کیوں انکار نہیں کر سکتے ؟ اگر اُس کو کوئی اچھا مل سکتا ہے تو لڑکی کو بھی لالچی سسرال سے اچھا سسرال مل سکتا ہے ۔جب تک جہیز کے بارے میں لڑکوں کے گھر والوں کے ذہنوں میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ جہیز کا مطالبہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے اُس وقت تک جہیز کا مطالبہ کیا جاتا رہے گا۔ اور غریب اور متوسط گھرانوں کو اسی طرح بیٹیوں کے جہیز کی فکر ستاتی رہے گی ۔ کوئی لڑکی جہیز کم لے جائے اُس کو سسرال میں بات بات پر طعنے ملتے رہیں گے ، ان سب باتوں سے چھٹکارا صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تمام لڑکوں کی مائیں اور تمام لالچی لڑکے کُھلے دل کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ ہمیں نیک سیرت بہو اور بیوی چاہیئے ، اور لڑکی والے جو کچھ اپنی خوشی سے دینا چاہیں وہ اپنی حیثیت کے مطابق دیں ، اس کے علاوہ جہیز کے بغیر شادی کا ایک راستہ کورٹ میرج ہے ، ہر چیز کی بچت ہو سکتی ہے، شرط ہے ہمت کی ۔۔۔ اور اس طرح کی ہمت آئندہ سو سالوں میں بھی ہمارا معاشرہ کُھلے دل سے قبول کرتا نظر نہیں آتا۔۔۔۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں قانون بنائے جیسے ایوب خان کے دورمیں جہیز کی رسم کے خلاف ایک کوشش کی گئی تھی لیکن بہتر نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا، کیونکہ لوگ چوری چھپے جہیز دینے لگے تھے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا قانون نافذ کیا جائے جس کے تحت جہیز لینا اور دینا دونوں کو ایک سنگین جرم قرار دیا جائے تاکہ ہمارا معاشرہ جہیز کی لعنت سے پاک ہوسکے۔

سلام علیکم
بارک اللہ ،احسنت ، مختصر اور جامع آرٹیکل ہے
والسلام
سیدا رتضی حسن رضوی
 
جہیز

السلامُ علیکُم
بہترین تحریر ہے جزاک اللہ کاش کہ لوگ دِل میں درد رکھ کر اِس بات کو سمجھ سکیں تو دُنیا میں جنّت پا لیں
دُعاگو
شاہدہ اکرم
 
Top