مغزل
محفلین
ڈاکٹر مظفر حنفی (ہندوستان) کی ایک خوبصورت غزل جو میرے دل و دماغ میں رقصاں ہے جانے کیوں کئی دن سے بار بار ہونٹوں تک آجاتی ہے۔
میں نے سوچا آپ احباب کی نذر کردوں ۔ جو شعر میرے حافظے میں رہے وہ پیش ہیں ۔۔ اگر مزید ہوئے تو پیش کردوں گا،
والسلام
غزل
میں گنہگار اور ان گنت پارسا، چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے
جیسے شب خون میں بوکھلا کر اٹھیں لوگ تلوار تلوار کرتے ہوئے
اڑ رہی تھی وہاں گرد تشکیک کی ، آندھیاں تیزتھیں طنز و تضحیک کی
راستے میں پڑا نیک نامی کا پل ، خوف آیا جسے پار کرتے ہوئے
وہ خراشیں دکھاتے رہے ہاتھ کی، سنگ باری کے دوران آئیں تھی جو
ہم ادھر زخمِ سر کو چھپاتے رہے اور تزئینِ دستار کرتے ہوئے
بے رخی کی ہوائیں موافق نہ تھیں ، کیسے اخلاص کی کونپلیں پوٹھتیں
چار آنسو زمینوں کو نم کرگئے ، سرد لفظوں کو بے کار کرتے ہوئے
پھر چھٹی حس سے پرچے لگائے بہت ، آئینے عاقبت نے دکھائے بہت
بھائی نے آج کیوں مجھ کو دیکھا نہیں، تاج پوشی کا دربار کرتے ہوئے
یہ زمانہ لگا ہے کہ اب جسم میں ، خار کے واسطے قطرہِ خوں نہیں
ایک وہ وقت بھی تھا کہ چلتے تھے ہم ، راستے بھر کو گلنار کرتے ہوئے
طرزِ تعمیر کے کچھ نئے زاویے، عصرِ نو کو مظفر نے بخشے تو ہیں
اپنی ہی ذات پر وار کرتے ہوئے ، اپنی ہستی کو مسمار کرتے ہوئے
ڈاکٹر مظفر حنفی
(ہندوستان)
میں نے سوچا آپ احباب کی نذر کردوں ۔ جو شعر میرے حافظے میں رہے وہ پیش ہیں ۔۔ اگر مزید ہوئے تو پیش کردوں گا،
والسلام
غزل
میں گنہگار اور ان گنت پارسا، چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے
جیسے شب خون میں بوکھلا کر اٹھیں لوگ تلوار تلوار کرتے ہوئے
اڑ رہی تھی وہاں گرد تشکیک کی ، آندھیاں تیزتھیں طنز و تضحیک کی
راستے میں پڑا نیک نامی کا پل ، خوف آیا جسے پار کرتے ہوئے
وہ خراشیں دکھاتے رہے ہاتھ کی، سنگ باری کے دوران آئیں تھی جو
ہم ادھر زخمِ سر کو چھپاتے رہے اور تزئینِ دستار کرتے ہوئے
بے رخی کی ہوائیں موافق نہ تھیں ، کیسے اخلاص کی کونپلیں پوٹھتیں
چار آنسو زمینوں کو نم کرگئے ، سرد لفظوں کو بے کار کرتے ہوئے
پھر چھٹی حس سے پرچے لگائے بہت ، آئینے عاقبت نے دکھائے بہت
بھائی نے آج کیوں مجھ کو دیکھا نہیں، تاج پوشی کا دربار کرتے ہوئے
یہ زمانہ لگا ہے کہ اب جسم میں ، خار کے واسطے قطرہِ خوں نہیں
ایک وہ وقت بھی تھا کہ چلتے تھے ہم ، راستے بھر کو گلنار کرتے ہوئے
طرزِ تعمیر کے کچھ نئے زاویے، عصرِ نو کو مظفر نے بخشے تو ہیں
اپنی ہی ذات پر وار کرتے ہوئے ، اپنی ہستی کو مسمار کرتے ہوئے
ڈاکٹر مظفر حنفی
(ہندوستان)