فرحان محمد خان
محفلین
غزل
جیسے کسی دریا میں سرِ آب پرندے
لگتے ہیں مجھے انجم و مہتاب پرندے
بچوں کے لیے حیرتِ پرواز نہیں ہے
اس شہر میں مدت سے ہیں نایاب پرندے
کس دیس اُنھیں لے گئیں بیتاب اُڑانیں
آنکھوں کے نشیمن سے گئے خواب پرندے
میں ساحلِ افتادہ پہ خاموش کھڑا ہوں
دریا میں نہاتے ہیں سرِ آب پرندے
میں کوشہِ صحرا میں ہوں اور جوئے رواں ہوں
ہوتے ہیں مرے لمس سے سیراب پرندے
سوتے نہیں مدت سے مرے شہر کے بچے
جیسے ہوں کسی خوف سے بے خواب پرندے
اس شاخ پہ جب سے وہ گلِ سرخ کھلا ہے
اک رقصِ طرب کرتے ہیں بیتاب پرندے
یہ ربط کسی فصل کا پابند نہیں ہے
میں دریا ہوں اور ہیں مرے احباب پرندے
لگتے ہیں مجھے انجم و مہتاب پرندے
بچوں کے لیے حیرتِ پرواز نہیں ہے
اس شہر میں مدت سے ہیں نایاب پرندے
کس دیس اُنھیں لے گئیں بیتاب اُڑانیں
آنکھوں کے نشیمن سے گئے خواب پرندے
میں ساحلِ افتادہ پہ خاموش کھڑا ہوں
دریا میں نہاتے ہیں سرِ آب پرندے
میں کوشہِ صحرا میں ہوں اور جوئے رواں ہوں
ہوتے ہیں مرے لمس سے سیراب پرندے
سوتے نہیں مدت سے مرے شہر کے بچے
جیسے ہوں کسی خوف سے بے خواب پرندے
اس شاخ پہ جب سے وہ گلِ سرخ کھلا ہے
اک رقصِ طرب کرتے ہیں بیتاب پرندے
یہ ربط کسی فصل کا پابند نہیں ہے
میں دریا ہوں اور ہیں مرے احباب پرندے
سلیم احمد