جینا ترے لیے ہے نہ مرنا ترے لیے

احمد وصال

محفلین
جینا ترے لیے ہے نہ مرنا ترے لیے
اب اس کو بھول جانا ہے اچھا ترے لیے

تصویر، پھول، تتلی ،کتابیں، شکستہ خط
ساری نشانیوں کو سنبھالا ترے لیے

الجھن، امید، خوف، گھٹن، شب، ستارے، میں
مل کر سبھی نے مجھ سے ہے سوچا ترے لیے

لب پہ ہنسی ہوں لایا میں اشکوں کے باوجود
خود پہ چڑھا لیا نیا چہرہ ترے لیے

نرگس، چنبیلی، موتیا، سوسن ، کنول، گلاب
ہر پھول یاں پہ کھلتا ہے یارا ترے لیے

بارش اٹھا کے لائی ہے قوسِ قزح کے رنگ
بڑھیا نے رکھا چاند پہ چرخہ ترے لیے

لوگوں نے میری ہار پہ آنسو بہا دیئے
خود سے میں دیکھو کس طرح ہارا ترے لیے

فطرت کے رنگ، تتلی، تبسم، وفا، شفق
سورج، ستارے ، شام، سویرا ترے لیے

خود کو رکھے گا کس طرح مُردوں کے شہر میں
کردار تیرا کوئی نہ قصہ ترے لیے

احمد وصال دیکھے وہ بدلے میں جان کے
گھاٹے کا تو نہیں ہے یہ سودا ترے لیے
 
آخری تدوین:
Top