جینے کا حق کسی کو دنیا کبھی نہ دے گی برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
--------------
جینے کا حق کسی کو دنیا کبھی نہ دے گی
ایسی رہی ہے دنیا ایسی سدا رہے کی
--------یا
پہلے بھی اس طرح تھی ایسی ہی اب رہے گی
----------------
رکھے گی یاد دنیا دو چار دن مجھے بھی
اچھا وہ آدمی تھا اتنا ہی بس کہے گی
-----------
لاچار ہو گیا تو دھکے ملیں گے مجھ کو
ہرگز نہ بوجھ میرا دنیا کبھی سہے گی
--------------
اپنا نہ کہہ سکا میں، تھے لوگ اس طرح کے
کائی مرا بھی ہوتا حسرت یہی رہے گی
-------------------
الفت کسی کی میں نے پائی نہ اس جہاں میں
بن کر یہ اشک میرے حسرت مری بہے گی
-------------
ناراض ہو کے ارشد دنیا سے جا رہا ہے
اک دن مرا جنازہ یہ دیکھتی رہے گی
---------------
 

الف عین

لائبریرین
دنیا دنیا اس غزل میں بہت ہو گیا کچھ کم کر دو، باقی زیادہ تر درست ہے غزل، بعد میں پھر دیکھتا ہوں اگر کچھ خامی ہو یا بہتری کی صورت
 

عظیم

محفلین
جینے کا حق کسی کو دنیا کبھی نہ دے گی
ایسی رہی ہے دنیا ایسی سدا رہے کی
--------یا
پہلے بھی اس طرح تھی ایسی ہی اب رہے گی
----------------ایسی ہی تھی یہ پہلے، ایسی ہی کیا رہے گی؟
بہتر مصرع ہو گا۔
پہلے متبادل میں دنیا کو دہرایا گیا تھا اور دوسرے متبادل میں 'اب' فٹ نہیں بیٹھا۔ شاید 'اب بھی' کا محل تھا

رکھے گی یاد دنیا دو چار دن مجھے بھی
اچھا وہ آدمی تھا اتنا ہی بس کہے گی
-----------یاد دنیا میں د کی وجہ سے تنافر ہے، رکھے گی یاد مجھ کو، دو چار دن ہی دنیا
دوسرے مصرع میں 'اتنا ہی بس کہے گی' میں کچھ مسئلہ ہے شاید ٹینسس کا. مجھے لگتا ہے کہ 'اتنا کہا کرے گی' ہونا چاہیے تھا لیکن قافیہ کی مجبوری کی وجہ سے 'کہے گی' لانا پڑا۔ جو درست محسوس نہیں ہو رہا!

لاچار ہو گیا تو دھکے ملیں گے مجھ کو
ہرگز نہ بوجھ میرا دنیا کبھی سہے گی
--------------'تو' کو طویل کھینچا گیا ہے۔ جس کو فصیح نہیں مانا جاتا، اس کی جگہ 'جب' استعمال کر سکتے ہیں۔ اور 'دھکے ملا کریں گے' کا محل ہے!
میرا خیال تھا کہ قوافی میں کچھ گڑبڑ ہوئی ہے ابھی مطلع پر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ نے ایسے ہی خود کو 'رہے، کہے، سہے، بہے وغیرہ کا پابند کر لیا ہے
حالانکہ آپ کرے، سکے، لے، ڈھلے، بچے وغیرہ جیسے قوافی بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
اسی شعر میں بھی
لاچار ہو گیا جب، دھکے ملا کریں گے
ہرگز نہ بوجھ میرا، دنیا سہا کرے گی

اپنا نہ کہہ سکا میں، تھے لوگ اس طرح کے
کائی مرا بھی ہوتا حسرت یہی رہے گی
-------------------پہلے میں 'کسی کو' کی ضرورت ہے۔

الفت کسی کی میں نے پائی نہ اس جہاں میں
بن کر یہ اشک میرے حسرت مری بہے گی
-------------دوسرا مصرع دوبارہ کہہ لیں۔ اب آپ کے پاس قافیہ بھی کھلا ہو گیا ہے

ناراض ہو کے ارشد دنیا سے جا رہا ہے
اک دن مرا جنازہ یہ دیکھتی رہے گی
---------------دوسرے مصرع میں الٹ بات ہو گئی ہے، پہلے میں 'جا رہا ہے' اور دوسرے میں 'اک دن' ؟
میرا خیال ہے کہ اب قافیہ کی آزادی کو ذہن میں رکھ کر مکمل غزل دوبارہ دیکھیں
 
الف عین
عظیم
---------
جینے کا حق کسی کو دنیا کبھی نہ دے گی
ایسی ہی تھی یہ پہلے، ایسی ہی کیا رہے گی؟
-------------
رکھے گی یاد مجھ کو، دو چار دن ہی دنیا
اچھا وہ آدمی تھا اتنا ہی بس کہے گی
-----------
لاچار ہو گیا جب ، دھکے ملا کریں گے
ہرگز نہ بوجھ میرا دنیا کبھی سہے گی
--------------
لاچار ہو گیا جب، دھکے ملا کریں گے
ہرگز نہ بوجھ میرا، دنیا سہا کرے گی
--------------
تنہا رہا جہاں میں کوئی نہیں تھا اپنا
کوئی تو میرا بنتا حسرت یہی رہے گی
---------------
دنیا میں ہر کسی سے کرتا رہا محبّت
مجھ کو ملی نہ الفت یہ تو خلش رہے گی
----------
ارشد نے منہ ہے موڑا ناراض تھا جہاں سے
دنیا کمی کو اس کی محسوس تو کرے گی
------------
 

الف عین

لائبریرین
اصل غزل کے مطلع کا پہلا مصرعہ غور سے نہیں دیکھا تھا میں نے! وہاں پہلے بھی دے گی تھا، یعنی قافیہ کھلا ہوا تھا، لیکن بعد میں رہے بہے بنا کر تنگ کر دیا گیا، اب بھی محض ایک شعر میں کرے کا قافیہ لایا گیا ہے۔ دوسرے اشعار میں بھی قافیہ بدلیں۔ روانی کے اعتبار سے مزید خراب ہو گئی ہے عزل
 
الف عین
دنیا یہ تنگ نظر ہے اچھا نہیں کہے گی
ایسی ہے اس کی فطرت یونہی سدا رہے گی
-------------
رکھے گی یاد مجھ کو، دو چار دن ہی دنیا
اچھا وہ آدمی تھا اتنا ہی بس کہے گی
-----------
لاچار ہو گیا جب، دھکے ملا کریں گے
ہرگز نہ بوجھ میرا، دنیا کبھی سہے گی
--------------
تنہا رہا جہاں میں اپنا بنا نہ کوئی
کوئی تو میرا بنتا حسرت یہی رہے گی
---------------
دنیا میں ہر کسی سے کرتا رہا محبّت
مجھ کو ملی نہ الفت یہ تو خلش رہے گی
----------
ارشد نے منہ ہے موڑا ناراض تھا جہاں سے
دنیا کمی کو اس کی محسوس تو کرے گی
--------------یا
مرنے کے بعد میرا پھر نام یہ جپے گی
 
Top