شکیل احمد خان23
محفلین
غزل
ہے مصر تو ضرور وہ بازار ہی نہیں
یہ آنکھ صرف آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
تو جانتا ہے اور اِسے آزار ہی نہیں
الفاظ روحِ معنی سے یکسر ہوئے تہی
یہ دکھ ہے وہ کہ قابلِ اظہار ہی نہیں
’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ،کہ رات دن‘‘
اِس کاروبارِ عشق میں اِتوار ہی نہیں
آدم کا اک مقام ذرا یہ بھی دیکھیے
کرلے جو عزم پھر کوئی دیوار ہی نہیں
اپنے شکیل وہ ہیں جو ہیں مشکلوں میں ساتھ
اور پھر عِوض سے اُن کو سروکار ہی نہیں
آخری تدوین: