نور وجدان
لائبریرین
دنیا میں خواہش کا ہونا اللہ کے ہونے کی دلیل ہے اور اس کی حسرت ہونا انسان کے عبد ہونے کی دلیل ہے ۔ کچھ لوگ خواہش کو حسرت بنا لیتے ہیں اور کچھ لوگ خواہش کی تکمیل کے لیے جان لڑا دیتے ہیں اور کچھ امید کا دامن سدا یقین کے سفر پر رواں رہتے ہیں ۔ یونہی ایک دن میں نے بھی خواہش بُنی کہ میں حج کرنا چاہتی ہوں ۔ لوگوں کو حج کرتے دیکھا کرتی اور سوچتی کہ بڑے خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کے گھر جاتے ہیں ۔ عید الضحی پر پچھلے سال افسردہ بیٹھی تھی کہ دل سے ایک صدا اُبھری :
حاجی کون۔۔۔۔۔!
وہ جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں
وہ جو قربانی کی یاد مناتے ہیں
قربانی جس کی ابتدا حضرت اسماعیلؑ سے ہوئی
قربانی جس کی انتہا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی
میں انہی سوچوں میں غلطاں رہتی تھی کہ مجھے کون سی قربانی دینی ہے ۔
کیا ہم سب کو قربانی کی صرف یاد منانی ہے
یا اس کو مقصدِ حیات بنانا ہے ؟
مجھے اچانک ایسا لگا کہ کوئی اندر صدا لگا رہا ہے !
دل سے ایک صدا ابھر رہی ہو
جیسے کہ اچانک کوئی اندر مجھ میں صدا لگا رہا ہے ۔
میرے سامنے تو آؤ۔۔۔!
من مین چھپے لگاتے ہو صدائیں۔۔۔!
بڑی رنگوں کی پکار تم کرچکے
بہت سے رنگ مجھے دکھا دیے !
مجھے رنگوں میں الجھا دیا ہے!
پاؤں میں زنجیر ڈال مجھے مسافر کردیا ہے !
میری پاؤں میں اپنی تلاش کی زنجیر ڈال دی ۔
کس کے پیچھے میں بھاگوں...!
اور کروں تلاش کا سفر ۔۔!
اس نگر سے اس نگر کا سفر،
پاؤں میں ڈال تلاش کی زنجیر
مجھے تو مسافر کردیا ہے .......!
ہائے ! تم نے یہ کیا کر دیا ۔۔!
میرے لیے سب صحرا کر دیا۔۔!
کس سمت جاؤں اور کس کو پکاروں ؟
کہ میں رنگی ہوں تو کیسے ؟
یہ رنگ مجھ پر کیسا ہے ؟
''او رنگی ۔۔!
اپنے اندر جھانکتی کیوں نہیں ہے ؟
من میں جھانک اور پا سراغ ِ زندگی !
مٹا کے ہستی کے سب رنگ
تو کر اب میری بندگی
دیکھ ۔۔۔!
پاس جا'' کالے کپڑے ''کے
''کالے کپڑے'' میں چھپا حرم ہے ۔
کعبہ کو سلام پیش کر اور گزر جا۔۔!
یہی تیرا کام ہے ایسے ہی شور نہ مچا تو ''
کون ہو تم َ؟
''رنگی '' کہنے والے تم کون ہو ؟
مجھے کس نے رنگنا ہے ؟
میرا عشق باؤلا ہے اور روح مدہوش !
کیا تم نے رنگا مجھے ؟
ایک طرف جی چاہتا کالا کپڑا ہٹادوں ۔۔۔!
پھر جی چاپتا ہے پاس کھڑے مناجات کروں !
مجھے یقین ہے وہ میری دعا کو سنے گا !
وہ جس کا گھر ہے ''یہ''
دعا ہوگی میری قبول ،
اس کے بعد کیا ہوگا ؟
میرا نہ رنگ رہے گا اور نہ روپ ۔۔۔۔۔!!
میرے اندر کون ہوگا ؟کیا تم ۔۔۔۔؟
سنو۔۔۔!!
وہ کعبہ اِدھر ہے تو'' یہ'' کعبہ اُدھر ہے ۔
ِادھر بھی رنگ کالا ہے اور اُدھر بھی۔
اِدھر طوافِ خاک اور ادُھر میری ذات ہے۔
اِدھر بدن مست ہے اُدھر میں مدہوش ہوں
اِدھر تم نظر آتے ہو اور اُدھر تم بس چکے ہو
اب بس چکے ہو تو طواف ہو رہا ہے ۔
اِدھر بدن محو رقص تھا اب روح محوِ رقص ہے!!
اُدھر کوئی عاشق تھا تو اِدھر مجذوب ہے !!
اُدھر ست رنگی اور اِدھر یک رنگی ۔۔۔
اُدھر شاہد تھا کوئی اور اب مشہود
اُدھر کوئی ضرب لگائے پھرتا ہے۔
لا مشہود الا اللہ!
لا موجود الااللہ!
لا مقصود الا اللہ!
لا معبود الا اللہ!
حق ! لا الہ الا اللہ!
اور ِادھر خاموشی ۔۔۔!
'' خاموش'' تم اب بھی رنگی ہو ۔۔ !
سارے رنگ تمھارے میرے ہیں !
تیرا باطن اور ظاہر کس کا ہے؟
تیرا قبلہ و کعبہ کس کا ہے ؟
بھید چھپا اندر کس کا ہے ؟
تیرے دل میں عکس کس کا ہے ؟
یہ اکتساب و اضطراب کس لیے؟
فنا کے راستے پر حدود کس لیے ؟
اے خاکی ! یہ شبہات کس لیے ؟
یہ'' اضطراب۔۔۔! ''
تو نہ ختم ہونے کا ایک سلسلہ ہے۔
جو شاید قیامت تک جاری رہے گا۔
اس اضطراب کا اظہار کیسے کروں ؟
اپنے ''اندر ''کا جلوہ کیسے کروں ؟
وہ رنگ جو بکھرے تھے!
اب وہی رنگ جمع ہو کر،
ایک سفید روشنی کو جنم دیتے ہیں ۔
اس پر کالا کپڑا ہے ۔
اس کو دیکھوں کیسے؟ ؟
ہائے ! یہ اضطرابی۔۔۔!
کیسے ہوگی دید ؟
کتنے پردوں میں چھپا ہے'' تو''
یہ رنگوں کی دنیا ہے!
خوشبو کی دنیا ہے!
نغموں کی دنیا ہے!
اور سب کے اندر ''تو''
بس ایک آواز لگنی باقی!
بس وہ ہے تیری " حق ھو"
ہائے ! یہ حجابی ۔۔۔!
کیسے دیکھوں ؟
میرے رنگ'' کالے کپڑے'' نے کھینچ لیے
اور میں خالی ۔۔۔۔!
میرا اندر خالی!
میرا باہر خالی!
مگر باقی اک ''تو ہی ''تو''
تو ہی میرا سائیاں !
تو ہی میرا سائیاں!
دل کرے اب دہائیاں۔۔!
تو ہی میرا سائیاں۔۔!
جھلک کرداے نا اب!!
''سنو''
رنگی ۔۔۔۔!!!
حجاب ضروری ہے اور طواف بھی ضروری ہے ۔تم طواف کرتے رہے ہو اور تمھیں طواف میں سرشاری کے مقامات پر شاہد رہنا ہے ۔ تمھارا اضطراب اور خواب سب حقیقت میں بدلنے والے ہیں ۔اور ان کے بعد'' رازِ کن فیکون ''ہو جانا تم پر لازم ہے ۔زبان تمھاری خاموش رہنی چاہیے اور دل کو جاری رہنا چاہیے ۔ تمھاری ذرا سی کوتاہی تمھیں مجھ سے میلوں دور کر دے گی ۔اور دور ہوجانے والے بعض اوقات '' عین '' سے دور ہوجانے والے ہوتے ہیں۔۔۔!!!اپنی تقدیر تم کو خود بنانی ہے ۔وہ جو لوح و قلم پر رقم ہے اس کی دونوں انتہاؤں کو رقم کیا جاچکا ہے ۔ راستے متعین تمھاری عقل نے کرنے ہیں اور اس کے بعد عقل کا کام ختم ہو جائے گا ۔
او ۔۔!'' رنگی'' ۔۔۔!
جب عقل اپنا کام تمام کر چکے گی ۔
تیرا لا شعور تب جاگ جائے گا۔
تب خاکی سچا موحد ہوگا!
اور تیرے ذکر میں میرا ذکر ہوگا۔
''الا بذکر الا اللہ تطمئن القلوب''
میرا ذکر تیری چادر بن جائے گا!!
خوشبو چار سو پھیل جائے گی ۔
اور تب سب حجاب مٹ جائیں گے ۔
تیرا اضطراب بھی مٹ جائے گا۔
او خاکی ! تو صرف میرا ہوجائے گا ۔
خلقت کعبے کے گرد ''سو'' طواف بھی کرلے ''حج'' نہ ہوگا جب تک میرا طواف نہ کرے ۔ دیواروں کو چومتے چومتے ، کالا ہونے کی دعا مانگنے والے کم کم ہوتے ہیں ۔ یہی '' خلا '' تو بقا ہے ۔ اسی میں چھپی دوا ہے ۔ اور کالا رنگ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے ۔ کیا سنا نہیں تم نے ؟
إنما أمره إذا أراد شيئا أن يقول له كن فيكون
یہی مجھ تک پہنچے کے مدارج ہیں ۔ ان مدارج کو پہنچے بغیر حج کا عین تم نہ پاسکو گے ۔ بالکل اسی طرح تم کو ثوابِ طواف ضرور ملے گا جس طرح تم قرانِ حکیم کو سمجھے بغیر پڑھتے ہو بالکل اسی طرح تم حاجی بھی کہلاؤ گے ۔ جب تم آیتوں کو کھول کر پڑھو گے اور آیتوں کو آیتوں سے ملاؤ گے تو مشہودیت تم پر لاگو ہوجاؤ گی
حاجی کون۔۔۔۔۔!
وہ جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں
وہ جو قربانی کی یاد مناتے ہیں
قربانی جس کی ابتدا حضرت اسماعیلؑ سے ہوئی
قربانی جس کی انتہا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی
میں انہی سوچوں میں غلطاں رہتی تھی کہ مجھے کون سی قربانی دینی ہے ۔
کیا ہم سب کو قربانی کی صرف یاد منانی ہے
یا اس کو مقصدِ حیات بنانا ہے ؟
مجھے اچانک ایسا لگا کہ کوئی اندر صدا لگا رہا ہے !
دل سے ایک صدا ابھر رہی ہو
جیسے کہ اچانک کوئی اندر مجھ میں صدا لگا رہا ہے ۔
میرے سامنے تو آؤ۔۔۔!
من مین چھپے لگاتے ہو صدائیں۔۔۔!
بڑی رنگوں کی پکار تم کرچکے
بہت سے رنگ مجھے دکھا دیے !
مجھے رنگوں میں الجھا دیا ہے!
پاؤں میں زنجیر ڈال مجھے مسافر کردیا ہے !
میری پاؤں میں اپنی تلاش کی زنجیر ڈال دی ۔
کس کے پیچھے میں بھاگوں...!
اور کروں تلاش کا سفر ۔۔!
اس نگر سے اس نگر کا سفر،
پاؤں میں ڈال تلاش کی زنجیر
مجھے تو مسافر کردیا ہے .......!
ہائے ! تم نے یہ کیا کر دیا ۔۔!
میرے لیے سب صحرا کر دیا۔۔!
کس سمت جاؤں اور کس کو پکاروں ؟
کہ میں رنگی ہوں تو کیسے ؟
یہ رنگ مجھ پر کیسا ہے ؟
''او رنگی ۔۔!
اپنے اندر جھانکتی کیوں نہیں ہے ؟
من میں جھانک اور پا سراغ ِ زندگی !
مٹا کے ہستی کے سب رنگ
تو کر اب میری بندگی
دیکھ ۔۔۔!
پاس جا'' کالے کپڑے ''کے
''کالے کپڑے'' میں چھپا حرم ہے ۔
کعبہ کو سلام پیش کر اور گزر جا۔۔!
یہی تیرا کام ہے ایسے ہی شور نہ مچا تو ''
کون ہو تم َ؟
''رنگی '' کہنے والے تم کون ہو ؟
مجھے کس نے رنگنا ہے ؟
میرا عشق باؤلا ہے اور روح مدہوش !
کیا تم نے رنگا مجھے ؟
ایک طرف جی چاہتا کالا کپڑا ہٹادوں ۔۔۔!
پھر جی چاپتا ہے پاس کھڑے مناجات کروں !
مجھے یقین ہے وہ میری دعا کو سنے گا !
وہ جس کا گھر ہے ''یہ''
دعا ہوگی میری قبول ،
اس کے بعد کیا ہوگا ؟
میرا نہ رنگ رہے گا اور نہ روپ ۔۔۔۔۔!!
میرے اندر کون ہوگا ؟کیا تم ۔۔۔۔؟
سنو۔۔۔!!
وہ کعبہ اِدھر ہے تو'' یہ'' کعبہ اُدھر ہے ۔
ِادھر بھی رنگ کالا ہے اور اُدھر بھی۔
اِدھر طوافِ خاک اور ادُھر میری ذات ہے۔
اِدھر بدن مست ہے اُدھر میں مدہوش ہوں
اِدھر تم نظر آتے ہو اور اُدھر تم بس چکے ہو
اب بس چکے ہو تو طواف ہو رہا ہے ۔
اِدھر بدن محو رقص تھا اب روح محوِ رقص ہے!!
اُدھر کوئی عاشق تھا تو اِدھر مجذوب ہے !!
اُدھر ست رنگی اور اِدھر یک رنگی ۔۔۔
اُدھر شاہد تھا کوئی اور اب مشہود
اُدھر کوئی ضرب لگائے پھرتا ہے۔
لا مشہود الا اللہ!
لا موجود الااللہ!
لا مقصود الا اللہ!
لا معبود الا اللہ!
حق ! لا الہ الا اللہ!
اور ِادھر خاموشی ۔۔۔!
'' خاموش'' تم اب بھی رنگی ہو ۔۔ !
سارے رنگ تمھارے میرے ہیں !
تیرا باطن اور ظاہر کس کا ہے؟
تیرا قبلہ و کعبہ کس کا ہے ؟
بھید چھپا اندر کس کا ہے ؟
تیرے دل میں عکس کس کا ہے ؟
یہ اکتساب و اضطراب کس لیے؟
فنا کے راستے پر حدود کس لیے ؟
اے خاکی ! یہ شبہات کس لیے ؟
یہ'' اضطراب۔۔۔! ''
تو نہ ختم ہونے کا ایک سلسلہ ہے۔
جو شاید قیامت تک جاری رہے گا۔
اس اضطراب کا اظہار کیسے کروں ؟
اپنے ''اندر ''کا جلوہ کیسے کروں ؟
وہ رنگ جو بکھرے تھے!
اب وہی رنگ جمع ہو کر،
ایک سفید روشنی کو جنم دیتے ہیں ۔
اس پر کالا کپڑا ہے ۔
اس کو دیکھوں کیسے؟ ؟
ہائے ! یہ اضطرابی۔۔۔!
کیسے ہوگی دید ؟
کتنے پردوں میں چھپا ہے'' تو''
یہ رنگوں کی دنیا ہے!
خوشبو کی دنیا ہے!
نغموں کی دنیا ہے!
اور سب کے اندر ''تو''
بس ایک آواز لگنی باقی!
بس وہ ہے تیری " حق ھو"
ہائے ! یہ حجابی ۔۔۔!
کیسے دیکھوں ؟
میرے رنگ'' کالے کپڑے'' نے کھینچ لیے
اور میں خالی ۔۔۔۔!
میرا اندر خالی!
میرا باہر خالی!
مگر باقی اک ''تو ہی ''تو''
تو ہی میرا سائیاں !
تو ہی میرا سائیاں!
دل کرے اب دہائیاں۔۔!
تو ہی میرا سائیاں۔۔!
جھلک کرداے نا اب!!
''سنو''
رنگی ۔۔۔۔!!!
حجاب ضروری ہے اور طواف بھی ضروری ہے ۔تم طواف کرتے رہے ہو اور تمھیں طواف میں سرشاری کے مقامات پر شاہد رہنا ہے ۔ تمھارا اضطراب اور خواب سب حقیقت میں بدلنے والے ہیں ۔اور ان کے بعد'' رازِ کن فیکون ''ہو جانا تم پر لازم ہے ۔زبان تمھاری خاموش رہنی چاہیے اور دل کو جاری رہنا چاہیے ۔ تمھاری ذرا سی کوتاہی تمھیں مجھ سے میلوں دور کر دے گی ۔اور دور ہوجانے والے بعض اوقات '' عین '' سے دور ہوجانے والے ہوتے ہیں۔۔۔!!!اپنی تقدیر تم کو خود بنانی ہے ۔وہ جو لوح و قلم پر رقم ہے اس کی دونوں انتہاؤں کو رقم کیا جاچکا ہے ۔ راستے متعین تمھاری عقل نے کرنے ہیں اور اس کے بعد عقل کا کام ختم ہو جائے گا ۔
او ۔۔!'' رنگی'' ۔۔۔!
جب عقل اپنا کام تمام کر چکے گی ۔
تیرا لا شعور تب جاگ جائے گا۔
تب خاکی سچا موحد ہوگا!
اور تیرے ذکر میں میرا ذکر ہوگا۔
''الا بذکر الا اللہ تطمئن القلوب''
میرا ذکر تیری چادر بن جائے گا!!
خوشبو چار سو پھیل جائے گی ۔
اور تب سب حجاب مٹ جائیں گے ۔
تیرا اضطراب بھی مٹ جائے گا۔
او خاکی ! تو صرف میرا ہوجائے گا ۔
خلقت کعبے کے گرد ''سو'' طواف بھی کرلے ''حج'' نہ ہوگا جب تک میرا طواف نہ کرے ۔ دیواروں کو چومتے چومتے ، کالا ہونے کی دعا مانگنے والے کم کم ہوتے ہیں ۔ یہی '' خلا '' تو بقا ہے ۔ اسی میں چھپی دوا ہے ۔ اور کالا رنگ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے ۔ کیا سنا نہیں تم نے ؟
إنما أمره إذا أراد شيئا أن يقول له كن فيكون
یہی مجھ تک پہنچے کے مدارج ہیں ۔ ان مدارج کو پہنچے بغیر حج کا عین تم نہ پاسکو گے ۔ بالکل اسی طرح تم کو ثوابِ طواف ضرور ملے گا جس طرح تم قرانِ حکیم کو سمجھے بغیر پڑھتے ہو بالکل اسی طرح تم حاجی بھی کہلاؤ گے ۔ جب تم آیتوں کو کھول کر پڑھو گے اور آیتوں کو آیتوں سے ملاؤ گے تو مشہودیت تم پر لاگو ہوجاؤ گی
آخری تدوین: