محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
’’نہیں، عدنان…! مجھے تمھاری بات سے بالکل اتفاق نہیں۔‘‘ عظیم نے منہ بناکر کہا۔
’’نہ مانو…مگر یاد رکھنا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تمھیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ واقعی عدنان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔‘‘ عدنان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
’’مگر … یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان صرف عقل سے کام لے کر کسی مجرم کو پکڑ لے ، خواہ اس کے پاس طاقت ہو یا نہ ہو، میں جہاں تک سمجھتا ہوں، اگر کسی کے پاس عقل تو کم ہو ، مگر طاقت اور ہمت خوب ہو تو وہ بڑے سے بڑے چور اور ماہر سے ماہر ڈاکو پر بھی قابو پاسکتا ہے، اس سے انکار نہیں کہ عقل بھی بہت کام آتی ہے، مگر تم تو کہہ رہے ہو کہ طاقت ہو یا نہ ہو عقل مندی اور چالاکی تو لازمی ہونی چاہیے، میں اس بات کو نہیں مانتا۔‘‘
دونوں بھائی کافی دیر سے اس بحث میں لگے ہوئے تھے کہ عقل زیادہ اہم ہے یا طاقت؟…عدنان عمر میں بڑا تھا اور اپنے چھوٹے بھائی عظیم کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا، جو کہ حال ہی میں پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔
عظیم کو چوروں اور ڈاکوؤں سے سخت نفرت تھی، اس کا کہنا تھا کہ شہر کے خراب حالات کی بنیادی وجہ یہی چور اور ڈاکو تھے۔
عدنان کہنے لگا:’’دیکھو عظیم…! اس میں کچھ شک نہیں کہ تم اپنے مقصد میں مخلص ہو…مگر میری بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ صرف اپنی طاقت کے زعم میں عقل اور ہوش یاری کا دامن نہ چھوٹنے پائے ورنہ شرمندگی بھی پھر تمھیں ہی ہوگی۔‘‘
عظیم کچھ ہاں ، کچھ نا کر کے گھر سے باہر نکل گیا، صبح صبح کا وقت تھا،روزانہ صبح سویرے علاقے سے کچھ فاصلے پر ایک میدان میں چکر لگانا عظیم کا معمول بن چکا تھا۔
مین روڈکہ اس پار وہ بڑا سامیدان تھا، صبح صبح بہت کم لوگ وہاں ہوتے تھے، روڈ کی طرف والے میدان کے کنارے کافی ساری جھاڑیاں تھیں، ایک طرف سے بس اندر آنے جانے کا چھوٹا سا راستہ بنا ہوا تھا جس میں سے ایک وقت میں تین آدمی گزر سکتے تھے۔
ابھی عظیم کو اس میں میدان کا چکر لگاتے پانچ دس منٹ ہی ہوئے تھے ، اسے سامنے سے ایک کارآتی نظر آئی۔
کار کو دیکھ کر عظیم حیران رہ گیا، کیوں کہ کار جس طرف جارہی تھی وہاں سے تو باہر جانے کا راستہ ہی نہیں تھا، عظیم سوچنے لگا، اس کا مطلب ہے یہ کار والا اس علاقے کا نہیں…
اگر کسی اور علاقے کا ہے تو یہاں کسی کا مہمان ہوگا ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میزبان اپنے مہمان کو واپسی کا راستہ تک نہ بتائے، پھر اس کو تو آتے ہوئے ہی یہاں سے باہر کا نکلنے کا راستہ بھی معلوم ہوجانا چاہیے تھا…
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ شخص نہ مہمان ہو ، نہ اس علاقے کا ہو، کہیں اور سے آیا ہو ، کہیں جارہا ہو، مگر پھر یہ اتنی آہستہ گاڑی کیوں چلا رہا ہے؟
عظیم کچھ نہ سمجھنے والے انداز سے اس کار کو گھور گھور کر دیکھنے لگا، پھر اسے یہ دیکھ کر اور حیرت ہوئی کہ وہ صحیح چلا بھی نہیں رہا تھا، شاید گھبرا رہا تھا، یہ کیوں گھبرا رہا ہے عظیم سوچنے لگا، کون گھبراتے ہیں؟ کار کو چُرانے والے ، کہیں یہ شخص کسی اور کی کار تو چُرا کر نہیں لے جارہا…؟
شاید اسی لیے گھبرا بھی رہا ہے…
اور شاید اسی وجہ سے اسے باہر نکلنے کا راستہ بھی نہیں معلوم…
’’ارے یہ کیا…!!‘‘ عظیم کے منہ مارے حیرت کے نکلا، اس نے دیکھا وہ کار دوبارہ اسی بند راستے کی طرف بڑھی جارہی ہے۔
’’یہ شخص پاگل معلوم ہوتا… نہیں پاگل اتنی آسانی گاڑی نہیں چلا سکتا ، شاید یہ کوئی نیا چور ہے جسے تجربہ نہیں ہے، ورنہ پرانے چور تو پہلے سے واپسی کا راستہ معلوم رکھتے ہیں…
نہ جانے کس کی کار چُرا کر لے جارہا ہے…
صبح صبح کوئی رات بھر سفر کرکے آیا ہوگا اور نیند میں ہونے کی وجہ سے شاید اپنی چابی کار میں لگی چھوڑ گیا ہوگا…
اور…اور اس نئے اور ناتجربے کار چور کو موقع مل گیا ہوگا…
عظیم انتہائی سنجیدگی سے اس کار کی طرف دیکھ کر سوچنے لگا:’’اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
اور پھر جوش اور غصے میں اس کے قدم خود بہ خود اس آہستہ چلتی کار کی طرف اٹھ گئے۔
’’بیٹا…! کار میں بیٹھ کر سواری کی دعا پڑھ لینا، نئی نئی سیکھ رہے ہو، کہیں کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘والدہ نے فکر مندی سے کہا۔
’’ارے ماں…! میدان پورا خالی ہوتا ہے اس میں کس کو ٹکر ماروں گا؟ سواری کی دعا تو تب پڑی جاتی ہے جب کسی لمبے سفر پر جانا ہو۔‘‘
نہیں بیٹا…! جب بھی کسی سواری پر آدمی سوار ہو اسے سواری کی دعا ضرور پڑھنی چاہیے، حادثہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
’’چلو…چلتا ہوں ماں! اللہ حافظ، السلام علیکم۔‘‘
فیصل سلام کرکے ماں کا جواب سنے بغیر ہی تیزی سے گھر سے باہر نکل آیا، اسے ابھی تک اپنی والدہ کی اس بات پر ہنسی آرہی تھی کہ سواری کی دعا پڑھ لے، بھلا اس میدان میں صبح صبح جب کہ پورا میدان خالی ہوتا ہے ، مجھے کار کے دوران کونسا ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے؟ مسکراتے ہوئے اس نے کار اسٹارٹ کی اور میدان کی جانب بڑھ گیا۔
میدان میںاکا دکا لوگ ٹہل رہے تھے، وہ کار کو میدان کنارے لے گیا اور آہستہ آہستہ چلانے لگا، ابھی اس کی کار کا دوسرا چکر تھا ، اچانک اس نے دیکھا کوئی شخص تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔
’’لائسنس کہاں ہے؟‘‘ آنے والے نے کرخت لہجے میں پوچھا۔
’’کیوں…؟ تمھیں اس سے کیا؟ تم اپنا کام سے کام رکھو‘‘ فیصل کو اس کا یہ لہجہ بہت برا لگا۔ اس نے کار روک لی تھی۔
’’کس کی کار ہے یہ؟‘‘
’’مگر تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟‘‘
’’سچ سچ بتائو کہاں سے چرائی ہے یہ؟‘‘
’’میں… میں تم کو چور لگتا ہوں…!! تمھیں شرم نہیں آتی اس طرح کسی پر الزام تراشی کرتے ہوئے…؟‘‘
’’چلو پھر کاغذات دکھائو اپنی کار کے۔‘‘
’’میرے پاس نہیں ہیں کاغذات۔‘‘
اچانک اس شخص نے فیصل کا گریبان پکڑ لیا اور دروازہ کھول کر اسے گھسیٹتا ہوا باہر نکال کھڑا کیا۔
’’ارے…ارے … چھوڑو مجھے، کون ہو تم؟…تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر اس طرح ہاتھ اٹھانے کی؟‘‘فیصل نے زور لگانا چاہا مگر منہ پر پڑنے والے زور دار مکے نے اس کے ہوش اڑادیے۔
’’کیا چاہیے تمھیں…؟‘‘ فیصل نے گھبراتے ہوئے کہا، وہ سمجھا یہ کوئی چور ڈاکو ہے۔
’’میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کار کس کی ہے؟ سچ سچ بتادو ، میں تمھیں چھوڑ دوں گا۔‘‘عظیم نے ایک اور مکا اس کے جبڑے پر داغ دیا۔
’’یہ…یہ کار …وہ …مم… میں ابھی کار سیکھنے کے مم…مراحل سے گزر رہا ہوں…یہ کک…کمپنی کی کار ہے۔‘‘
’’کیا…!!‘‘عظیم کے منہ سے حیرت کے مارے نکلا۔اس پہلو پر تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
’’تت…تو…تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟…میں سمجھا تم کسی کی کار چُرا کر لے جارہے ہو۔‘‘عظیم نے اسے چھوڑدیا۔
عظیم کے دماغ میں عدنان کا یہ جملہ گونجنے لگا: ’’دیکھو عظیم…! اس میں کچھ شک نہیں کہ تم اپنے مقصد میں مخلص ہو…مگر میری بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ صرف اپنی طاقت کے زعم میں عقل اور ہوش یاری کا دامن نہ چھوٹنے پائے ورنہ شرمندگی بھی پھر تمھیں ہی ہوگی۔‘‘
عدنان نے یہ بھی کہا تھا: ’’نہ مانو…مگر یاد رکھنا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تمھیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ واقعی عدنان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’واقعی عدنان ٹھیک کہہ رہا تھا۔‘‘ عظیم کے منہ سے یہ جملہ سن کر فیصل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں نہیں جانتا تم کس عدنان کی بات کر رہے ہو؟ بس مجھے تو ایک بات سمجھ آگئی ہے کہ میری ماں صحیح کہہ رہی تھی۔‘‘ فیصل نے مسکراتے ہوئے کہا، حالاں کہ دو مکے کھاکر اس کے گال بالکل پکے ہوئے ٹماٹر ہوچکے تھے۔
’’کیا کہہ رہی تھی تمھاری ماں…؟‘‘ عظیم نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’میری ماں کہہ رہی تھی:
’’بیٹا…! کار میں بیٹھ کر سواری کی دعا پڑھ لینا، نئی نئی سیکھ رہے ہو، کہیں کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘
وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں:
’’بیٹا…! جب بھی کسی سواری پر آدمی سوار ہو اسے سواری کی دعا ضرور پڑھنی چاہیے، حادثہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
میں اپنی ماں کی بات پر ہنسا تھا، مگر دیکھ لو حادثہ ہو ہی گیا۔
’’معاف کردینا بھائی…!‘‘عظیم کہنے لگا:’’میں پولیس میں ہوں، میں سمجھا شاید تم کوئی چور اچکے ہو۔‘‘
’’خیر ہے جی …! کوئی بات نہیں۔‘‘
اور پھر دونوں مسکرانے لگے۔
بقلم محمد اسامہ سَرسَری
’’نہ مانو…مگر یاد رکھنا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تمھیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ واقعی عدنان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔‘‘ عدنان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
’’مگر … یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان صرف عقل سے کام لے کر کسی مجرم کو پکڑ لے ، خواہ اس کے پاس طاقت ہو یا نہ ہو، میں جہاں تک سمجھتا ہوں، اگر کسی کے پاس عقل تو کم ہو ، مگر طاقت اور ہمت خوب ہو تو وہ بڑے سے بڑے چور اور ماہر سے ماہر ڈاکو پر بھی قابو پاسکتا ہے، اس سے انکار نہیں کہ عقل بھی بہت کام آتی ہے، مگر تم تو کہہ رہے ہو کہ طاقت ہو یا نہ ہو عقل مندی اور چالاکی تو لازمی ہونی چاہیے، میں اس بات کو نہیں مانتا۔‘‘
دونوں بھائی کافی دیر سے اس بحث میں لگے ہوئے تھے کہ عقل زیادہ اہم ہے یا طاقت؟…عدنان عمر میں بڑا تھا اور اپنے چھوٹے بھائی عظیم کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا، جو کہ حال ہی میں پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔
عظیم کو چوروں اور ڈاکوؤں سے سخت نفرت تھی، اس کا کہنا تھا کہ شہر کے خراب حالات کی بنیادی وجہ یہی چور اور ڈاکو تھے۔
عدنان کہنے لگا:’’دیکھو عظیم…! اس میں کچھ شک نہیں کہ تم اپنے مقصد میں مخلص ہو…مگر میری بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ صرف اپنی طاقت کے زعم میں عقل اور ہوش یاری کا دامن نہ چھوٹنے پائے ورنہ شرمندگی بھی پھر تمھیں ہی ہوگی۔‘‘
عظیم کچھ ہاں ، کچھ نا کر کے گھر سے باہر نکل گیا، صبح صبح کا وقت تھا،روزانہ صبح سویرے علاقے سے کچھ فاصلے پر ایک میدان میں چکر لگانا عظیم کا معمول بن چکا تھا۔
مین روڈکہ اس پار وہ بڑا سامیدان تھا، صبح صبح بہت کم لوگ وہاں ہوتے تھے، روڈ کی طرف والے میدان کے کنارے کافی ساری جھاڑیاں تھیں، ایک طرف سے بس اندر آنے جانے کا چھوٹا سا راستہ بنا ہوا تھا جس میں سے ایک وقت میں تین آدمی گزر سکتے تھے۔
ابھی عظیم کو اس میں میدان کا چکر لگاتے پانچ دس منٹ ہی ہوئے تھے ، اسے سامنے سے ایک کارآتی نظر آئی۔
کار کو دیکھ کر عظیم حیران رہ گیا، کیوں کہ کار جس طرف جارہی تھی وہاں سے تو باہر جانے کا راستہ ہی نہیں تھا، عظیم سوچنے لگا، اس کا مطلب ہے یہ کار والا اس علاقے کا نہیں…
اگر کسی اور علاقے کا ہے تو یہاں کسی کا مہمان ہوگا ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میزبان اپنے مہمان کو واپسی کا راستہ تک نہ بتائے، پھر اس کو تو آتے ہوئے ہی یہاں سے باہر کا نکلنے کا راستہ بھی معلوم ہوجانا چاہیے تھا…
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ یہ شخص نہ مہمان ہو ، نہ اس علاقے کا ہو، کہیں اور سے آیا ہو ، کہیں جارہا ہو، مگر پھر یہ اتنی آہستہ گاڑی کیوں چلا رہا ہے؟
عظیم کچھ نہ سمجھنے والے انداز سے اس کار کو گھور گھور کر دیکھنے لگا، پھر اسے یہ دیکھ کر اور حیرت ہوئی کہ وہ صحیح چلا بھی نہیں رہا تھا، شاید گھبرا رہا تھا، یہ کیوں گھبرا رہا ہے عظیم سوچنے لگا، کون گھبراتے ہیں؟ کار کو چُرانے والے ، کہیں یہ شخص کسی اور کی کار تو چُرا کر نہیں لے جارہا…؟
شاید اسی لیے گھبرا بھی رہا ہے…
اور شاید اسی وجہ سے اسے باہر نکلنے کا راستہ بھی نہیں معلوم…
’’ارے یہ کیا…!!‘‘ عظیم کے منہ مارے حیرت کے نکلا، اس نے دیکھا وہ کار دوبارہ اسی بند راستے کی طرف بڑھی جارہی ہے۔
’’یہ شخص پاگل معلوم ہوتا… نہیں پاگل اتنی آسانی گاڑی نہیں چلا سکتا ، شاید یہ کوئی نیا چور ہے جسے تجربہ نہیں ہے، ورنہ پرانے چور تو پہلے سے واپسی کا راستہ معلوم رکھتے ہیں…
نہ جانے کس کی کار چُرا کر لے جارہا ہے…
صبح صبح کوئی رات بھر سفر کرکے آیا ہوگا اور نیند میں ہونے کی وجہ سے شاید اپنی چابی کار میں لگی چھوڑ گیا ہوگا…
اور…اور اس نئے اور ناتجربے کار چور کو موقع مل گیا ہوگا…
عظیم انتہائی سنجیدگی سے اس کار کی طرف دیکھ کر سوچنے لگا:’’اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
اور پھر جوش اور غصے میں اس کے قدم خود بہ خود اس آہستہ چلتی کار کی طرف اٹھ گئے۔
٭٭٭٭٭
’’چلتا ہوں ماں…!‘‘ فیصل نے چپل پہنتے ہوئے اپنی والدہ سے باہر جانے کا کہا اور دروازہ کھولنے لگا۔’’بیٹا…! کار میں بیٹھ کر سواری کی دعا پڑھ لینا، نئی نئی سیکھ رہے ہو، کہیں کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘والدہ نے فکر مندی سے کہا۔
’’ارے ماں…! میدان پورا خالی ہوتا ہے اس میں کس کو ٹکر ماروں گا؟ سواری کی دعا تو تب پڑی جاتی ہے جب کسی لمبے سفر پر جانا ہو۔‘‘
نہیں بیٹا…! جب بھی کسی سواری پر آدمی سوار ہو اسے سواری کی دعا ضرور پڑھنی چاہیے، حادثہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
’’چلو…چلتا ہوں ماں! اللہ حافظ، السلام علیکم۔‘‘
فیصل سلام کرکے ماں کا جواب سنے بغیر ہی تیزی سے گھر سے باہر نکل آیا، اسے ابھی تک اپنی والدہ کی اس بات پر ہنسی آرہی تھی کہ سواری کی دعا پڑھ لے، بھلا اس میدان میں صبح صبح جب کہ پورا میدان خالی ہوتا ہے ، مجھے کار کے دوران کونسا ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے؟ مسکراتے ہوئے اس نے کار اسٹارٹ کی اور میدان کی جانب بڑھ گیا۔
میدان میںاکا دکا لوگ ٹہل رہے تھے، وہ کار کو میدان کنارے لے گیا اور آہستہ آہستہ چلانے لگا، ابھی اس کی کار کا دوسرا چکر تھا ، اچانک اس نے دیکھا کوئی شخص تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔
’’لائسنس کہاں ہے؟‘‘ آنے والے نے کرخت لہجے میں پوچھا۔
’’کیوں…؟ تمھیں اس سے کیا؟ تم اپنا کام سے کام رکھو‘‘ فیصل کو اس کا یہ لہجہ بہت برا لگا۔ اس نے کار روک لی تھی۔
’’کس کی کار ہے یہ؟‘‘
’’مگر تم کون ہوتے ہو پوچھنے والے؟‘‘
’’سچ سچ بتائو کہاں سے چرائی ہے یہ؟‘‘
’’میں… میں تم کو چور لگتا ہوں…!! تمھیں شرم نہیں آتی اس طرح کسی پر الزام تراشی کرتے ہوئے…؟‘‘
’’چلو پھر کاغذات دکھائو اپنی کار کے۔‘‘
’’میرے پاس نہیں ہیں کاغذات۔‘‘
اچانک اس شخص نے فیصل کا گریبان پکڑ لیا اور دروازہ کھول کر اسے گھسیٹتا ہوا باہر نکال کھڑا کیا۔
’’ارے…ارے … چھوڑو مجھے، کون ہو تم؟…تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر اس طرح ہاتھ اٹھانے کی؟‘‘فیصل نے زور لگانا چاہا مگر منہ پر پڑنے والے زور دار مکے نے اس کے ہوش اڑادیے۔
’’کیا چاہیے تمھیں…؟‘‘ فیصل نے گھبراتے ہوئے کہا، وہ سمجھا یہ کوئی چور ڈاکو ہے۔
’’میں صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کار کس کی ہے؟ سچ سچ بتادو ، میں تمھیں چھوڑ دوں گا۔‘‘عظیم نے ایک اور مکا اس کے جبڑے پر داغ دیا۔
’’یہ…یہ کار …وہ …مم… میں ابھی کار سیکھنے کے مم…مراحل سے گزر رہا ہوں…یہ کک…کمپنی کی کار ہے۔‘‘
’’کیا…!!‘‘عظیم کے منہ سے حیرت کے مارے نکلا۔اس پہلو پر تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
’’تت…تو…تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟…میں سمجھا تم کسی کی کار چُرا کر لے جارہے ہو۔‘‘عظیم نے اسے چھوڑدیا۔
عظیم کے دماغ میں عدنان کا یہ جملہ گونجنے لگا: ’’دیکھو عظیم…! اس میں کچھ شک نہیں کہ تم اپنے مقصد میں مخلص ہو…مگر میری بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ صرف اپنی طاقت کے زعم میں عقل اور ہوش یاری کا دامن نہ چھوٹنے پائے ورنہ شرمندگی بھی پھر تمھیں ہی ہوگی۔‘‘
عدنان نے یہ بھی کہا تھا: ’’نہ مانو…مگر یاد رکھنا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تمھیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ واقعی عدنان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’واقعی عدنان ٹھیک کہہ رہا تھا۔‘‘ عظیم کے منہ سے یہ جملہ سن کر فیصل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں نہیں جانتا تم کس عدنان کی بات کر رہے ہو؟ بس مجھے تو ایک بات سمجھ آگئی ہے کہ میری ماں صحیح کہہ رہی تھی۔‘‘ فیصل نے مسکراتے ہوئے کہا، حالاں کہ دو مکے کھاکر اس کے گال بالکل پکے ہوئے ٹماٹر ہوچکے تھے۔
’’کیا کہہ رہی تھی تمھاری ماں…؟‘‘ عظیم نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’میری ماں کہہ رہی تھی:
’’بیٹا…! کار میں بیٹھ کر سواری کی دعا پڑھ لینا، نئی نئی سیکھ رہے ہو، کہیں کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘
وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں:
’’بیٹا…! جب بھی کسی سواری پر آدمی سوار ہو اسے سواری کی دعا ضرور پڑھنی چاہیے، حادثہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
میں اپنی ماں کی بات پر ہنسا تھا، مگر دیکھ لو حادثہ ہو ہی گیا۔
’’معاف کردینا بھائی…!‘‘عظیم کہنے لگا:’’میں پولیس میں ہوں، میں سمجھا شاید تم کوئی چور اچکے ہو۔‘‘
’’خیر ہے جی …! کوئی بات نہیں۔‘‘
اور پھر دونوں مسکرانے لگے۔
بقلم محمد اسامہ سَرسَری