نوید ناظم
محفلین
حادثات زندگی میں ہوا تو کرتے ہیں مگر کئی حادثات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ سب سے خطرناک حادثہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ظاہر تو سلامت رہے مگر باطن ریزہ ریزہ ہو جائے۔ حادثہ ظاہری بھی ہو سکتا ہے اور باطنی بھی۔ محبوب کا آنکھ سے اوجھل ہو جانا کسی حادثے سے کم نہیں، دوست اگر زندگی سے اچانک چلا جائے یا دشمن اچانک زندگی میں داخل ہو جائے تو دونوں حادثے ہی کی صورتِ حال ہے۔ کچھ بھی ہو' حادثات کو زندگی سے اور زندگی کو حادثات سے نکالا نہیں جا سکتا ۔ انسان جب تک زندہ ہے زندگی حادثے کی زد میں ہے۔ یہ موت کو بھی حادثہ خیال کرتا ہے. حادثے میں لوگ ماریں جائیں تو کہا جاتا ہے کی حادثے کی وجہ سے موت ہو گئی، حالانک حادثہ موت کا سبب نہیں بنتا بلکہ موت حادثے کا سبب بنتی ہے۔ حادثوں میں بڑا حادثہ یہ بھی ہے کہ انسان کا پالا کسی احمق سے پڑ جائے۔ اسی طرح کسی دانش مند کی صحبت سے محروم ہو جانا بھی ایسے ہے جیسے کہ حادثہ ۔انسان حادثے سے دور رہنا چاہتا ہے مگر حادثہ یہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا...انسان خواہش کے بغیر نہیں رہ سکتا اور خواہش درمیان میں ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔۔ وہ خواہش جو درمیان میں رہ جائے' ایک حادثہ ہے۔ ہم اپنی زندگی میں مصروف رہتے ہیں اور زندگی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ ہر دن ہمیں بوڑھا کر جاتا ہے، یہ عمل چونکہ چپکے سے ہوتا ہے اس لیے معمولات میں چھپ جاتا ہے، مگر پھر چہرے پر جھریاں نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور بالآخر جوانی کے رخصت ہونے کا ادراک ہو جاتا ہے۔ انسان سوچتا ہے یہ کیا حادثہ ہو گیا۔ مگر زندگی میں جو کچھ ہونا ہے، وہ ضرور ہوتا ہے۔ حادثے کو اگر تقدیر کہہ لیا جائے تو انسان کی زندگی میں کوئی حادثہ نہیں ہے۔ ایک ہرن، شیر کی خوراک کے طور پر دنیا میں آتا ہے، بچپن گزارتا ہے، جوانی سے گزرتا ہے اور پھر ون فائن مورننگ خود چلتے چلتے شیر تک پہنچ جاتا ہے۔ اصل میں اچانک ہونے والا واقعہ بھی اتنا اچانک نہیں ہوتا۔ بحر حال حاثات سے پناہ مانگنی چاہیے۔ زندگی کو حادثات سے محفوظ رہنا چاہیے۔۔۔ خدا مفوظ رکھے-