کہتے ہیں کہ عرب زمانہ جاہلیت میں مدینے(اس وقت کے یثرب) کے مضافات میں ایک علاقہ تھا جسکے بارے میں مشہور تھا کہ اس پر شیاطین کا تسلط ہے اور جو کوئی مسافر اس علاقے میں قدم رکھتے ہوئے تین مرتبہ اپنے حلق سے گدھے کی آواز نہ نکالے اور گدھے کی طرح ری تین مرتبہ رینکنے کی صدا بلند نہ کرے، تو وہ شیاطین اس مسافر کو تنگ کرتے ہیں ۔۔۔چنانچہ توہم پرستی کے سبب وہاں داخلے کے وقت سب لوگ گدھے کی طرح رینکتے تھے۔۔۔ایک مرتبہ وہاں سے ایک نازک مزاج عرب شاعر گذرا، جب اسے بھی قافلے والوں نے رینکنے کے لئے کہا اور سارے پس منظر سے آگاہ کیا تو وہ نہایت طیش کے عالم میں گھوڑے سے اتر کھڑا ہوا اور کچھ شعر کہے جنکا مفہوم یہ تھا کہ " خدا کی قسم اگر زندہ رہنے کیلئے حلق سے گدھے کی آواز نکالنی پڑے تو اس زندگی سے موت بہتر ہے " اور یہی بات کہتے کہتے وادی کو عبور کرگیا۔۔۔۔
اب پاکستانی قوم بھی خود ہی فیصلہ کرلے کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔
دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟