حاصل ہے ساری عمر کا اک سوزِ ناتمام --------محمود احمد غزنوی

غزل

حاصل ہے ساری عمر کا اک سوزِ ناتمام
دستِ طلب میں کچھ نہیں ،بس ایک ترا نام

جس پر بہت ہی ناز کیا ہے تمام عمر
آخر پتہ چلا وہ محبّت تھی میری خام

جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام

سوچوں کے دھندلکے میں دکھائی نہیں دیا
پھر چھپ گیا وہ اوڑھ کے اک ملگجی سی شام

پیروں تلے پجاریوں کے آرہے ہیں اب
کچھ مستقل مزاج سے پتھر ہوئے نہ رام
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے محمود غزنوی صاحب! مبارکباد قبول کیجیے۔
دھندلکا یا دھندلکے "فعولن" کے وزن پر آتا ہے مگر آپ نے اسے بر وزن "فاعلن" باندھا ہے۔ نیز مقطع کے مصرع ثانی پر بھی توجہ درکار ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت خوب بھائی
مقطع کا مصرع ثانی میں اگر یون ہوجائے تو کیسا رہے گا ؟؟؟؟؟
محمود وہ پتھر ،جو کبھی نہ ہو سکے رام
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے محمود صاحب، فاتح صاحب نے نشاندہیاں کر ہی دیں :)

جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام

کیا خوبصورت شعر ہے، واہ
 

الف عین

لائبریرین
واقعی اچھی غزل ہے، کچھ اغلاط کی نشان دہی کے بعد شاید تبدیلیاں کر دی ہیں۔
پوری غزل اس بحر میں ہے۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
لیکن یہ مصرع
محمود وہ پتھر ،جو کبھی ہو نہ سکے رام
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
میں ہو گیا ہے، اس کو باقی اشعار کی بحر میں ڈھالنا ہے۔
 
واقعی اچھی غزل ہے، کچھ اغلاط کی نشان دہی کے بعد شاید تبدیلیاں کر دی ہیں۔
پوری غزل اس بحر میں ہے۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
لیکن یہ مصرع
محمود وہ پتھر ،جو کبھی ہو نہ سکے رام
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
میں ہو گیا ہے، اس کو باقی اشعار کی بحر میں ڈھالنا ہے۔

بہت بہت شکریہ سر۔ ۔ ۔ ۔ بحریں قابو میں نہیں آرہیں۔ ۔ ۔مقطع میں تھوڑی سی تبدیلی کی ہے لیکن پتہ نہیں کہ یہ درست بھی ہے کہ نہیں:

پیروں تلے پجاریوں کے آرہے ہیں اب۔ ۔ ۔ ۔
کچھ مستقل مزاج سے پتّھر نہ ہوئے رام​
 

الف عین

لائبریرین
پیروں تلے پجاریوں کے آرہے ہیں اب۔ ۔ ۔ ۔
کچھ مستقل مزاج سے پتّھر نہ ہوئے رام
کی بجائے دوسرے مصرع میں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے
کچھ مستقل مزاج سے پتّھر ہوئے نہ رام
 

مغزل

محفلین
بہت خوب محمود صاحب، بہت عمدہ
اغلاط کی طرف نشاندہی فاتح بھیا ، وارث صاحب اور بابا جانی فرماچکے ہیں
خاکسار کی جانب سے ہدیہ مبارکبا د
گر قبول افتد زہے عز وشرف
 

الشفاء

لائبریرین
غزل
حاصل ہے ساری عمر کا اک سوزِ ناتمام
دستِ طلب میں کچھ نہیں ،بس ایک ترا نام
جس پر بہت ہی ناز کیا ہے تمام عمر۔ ۔ ۔ ۔
آخر پتہ چلا وہ محبّت تھی میری خام
جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام
سوچوں کے دھندلکے میں دکھائی نہیں دیا
پھر چھپ گیا وہ اوڑھ کے اک ملگجی سی شام
پیروں تلے پجاریوں کے آرہے ہیں اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ مستقل مزاج سے پتھر ہوئے نہ رام
واہ۔ غزنوی صاحب بہت خوب۔۔۔
آپ اس دشت کی سیّاحی کر کے جا بھی چکے۔۔۔ اور ہمیں معلوم ہی نہ ہوا۔۔۔
بہت سی داد قبول فرمائیں۔۔۔
 

شیزان

لائبریرین
بہت ہی عمدہ۔
یوں تو سبھی اشعار ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔۔ لیکن یہ تو دل ہی چھو گیا

جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام
 

احسن مرزا

محفلین
جس پر بہت ہی ناز کیا ہے تمام عمر۔ ۔ ۔ ۔
آخر پتہ چلا وہ محبّت تھی میری خام

سوچوں کے دھندلکے میں دکھائی نہیں دیا
پھر چھپ گیا وہ اوڑھ کے اک ملگجی سی شام

واااہ! بیحد عمدہ! ڈھیروں داد جناب۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب محترم غزنوی بھائی
جس مستقل کسک کو دیا نام عشق کا
اک آرزو کا کھیل تھا اور وہ بھی ناتمام
 
Top